رسائی کے لنکس

'کسی ملک کو بھارتی شہریوں کے بارے میں تبصرہ کرنے کا حق نہیں'


بھارت میں گائے کے کاروبار کے شبہ میں قتل ہونے والے مسلمان تاجر کے رشتہ دار
بھارت میں گائے کے کاروبار کے شبہ میں قتل ہونے والے مسلمان تاجر کے رشتہ دار

بھارت نے اتوار کو امریکی محکمہ خارجہ کی اُس حالیہ رپورٹ کر یکسر مسترد کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سال 2018 کے دوران ملک میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ان افواہوں کے بیچ حملے کرنے کا سلسلہ جاری رہا کہ بڑا گوشت (بیف) حاصل کرنے کے لئے گائیں ذبح کی گئیں یا ان کا کاروبار کیا گیا۔

عالمی مذاہب کو حاصل آزادی سے متعلق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ نریندر مودی حکومت اس طرح کے واقعات سے نمٹنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ رپورٹ میں جن واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ "مقامی تنازعات" کا نتیجہ تھے۔ انہوں نے کہا "بھارت کو اپنی سکیولر حیثیت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے اور رواداری اور ہم آہنگی کے عزم پر طویل عرصے سے قائم رہنے پر فخر ہے"۔

ترجمان نے کہا "بھارت کا آئین اقلیتوں سمیت ملک کے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو ہر طرف سے تسلیم کیا گیا ہے کہ بھارت ایک متحرک جمہوریت ہے جہاں آئین، مذہبی آزادی، جمہوری نظام اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کو فروغ اور تحفظ فراہم کیا گیا ہے"۔

رویش کمار نے مزید کہا کہ کسی بھی غیر ملکی ادارے یا حکومت کو بھارت کے شہریوں کے بارے میں تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا "ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے شہریوں کیلئے آئین میں محفوظ حقوق کی صورت حال پر کسی بھی غیر ملکی وجود کو تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل ہے"۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کا بھارت کا سرکاری دورہ شروع کرنے سے دو دن پہلے آیا ہے۔ پومپیو بھارت کے تین روزہ دورے پر منگل 25 جون کو نئی دہلی پہنچ رہے ہیں جس کے دوران وہ اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے باہمی دلچسپی کے معاملات اور دوسرے اہم امور پر بات چیت کریں گے۔ وہ وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر بھارتی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے۔

واضح رہے کہ مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی اسٹیٹ ڈپاڑٹمنٹ کی یہ سالانہ رپورٹ جس میں بھار ت کو شدید نکتہ چینی کا ہدف بنایا گیا ہے، پوپیو نے جمعے کو خود ہی جاری کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں اور خود ہندوؤں کے کمزور طبقے یا نچلی ذات 'دلت 'سے تعلق رکھنے والے افراد کو دھمکیاں دیں، ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی مذہب تبدیل کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔ رپورٹ میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں لسانی فسادات میں بھی اضافہ ہوا لیکن نریندر مودی حکومت نے اس مسئلے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2015 سے 2017 کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں نو گنا اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ افراد کی طرف سے ایسے اقدامات کئے جاتے رہے ہیں جن سے مسلمانوں کے ادارے اور مذہبی رسوم و رواج متاثر ہوئے ہیں۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے متعدد سینئر رہنما اقلیتی فرقوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ بھارتی آئین میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، مذہبی آزادی کی یہ تاریخ حالیہ برسوں میں انتہا پسندی پر مبنی بیانیے کو تقویت حاصل ہو جانے کے باعث حملے کی زد میں رہی ہے"۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں گا رکشا یا تحفظ گائے کے نام پر حملوں اور بلوائیوں کی طرف سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور حکام ان حملوں کو روکنے اور قصور واروں کو سزا دلانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

بھارت کے 29 میں سے 24 صوبوں میں گائے کے ذ بیحہ پر مکمل یا جزوی طور پر پابندی عائد ہے اور گائے ذبح کرنے کے جرم میں چھ ماہ سے دو سال تک قید اور ایک ہزار سے دس ہزار روپے تک جرمانہ کی سزا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس پابندی سے مسلمان اور پسماندہ طبقات کے افراد اقتصادی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت مسلمانوں کے اپنے قائم کردہ تعلیمی اداروں کی آئینی طور پر حاصل اقلیتی حیثیت کو سپریم کورٹ میں مسلسل چیلنج کرتی رہتی ہے۔ ملک میں ایسے شہروں کا نام تبدیل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جو مسلمان شخصیات سے منسوب ہیں یا جن کے نام مسلمانوں کی تاریخ یا روایات سے جڑے ہیں۔ اس کی واضح مثال الہ آباد ہے جسے تبدیل کر کے اب پریاگ راج کر دیا گیا۔ اس کا مقصد بھارت کے سماجی اور ثقافتی کردار کی تعمیر میں مسلمانو ں کے تاریخی رول کو مٹا دینا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر قتل، قاتلانہ حملے، فسادات، امتیازی سلوک اور لوٹ مار کے واقعات اکثر ہوتے رہے ہیں۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ان کے مذہبی احکامات پر عمل کرنے کے آئینی حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

تاہم رپورٹ میں بھارت کی "آزاد عدلیہ" کی اس بات کے لئے تعریف کی گئی ہے کہ اس نے قانونی اصولوں پر عملدرآمد کے ذریعے اکثر مذہبی اقلیتی فرقوں کو ضروری تحفظ اور امان فراہم کیا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG