رسائی کے لنکس

بھارت: گلوان وادی پر چین کا دعویٰ پھر مسترد، جمعے کو بات چیت متوقع


لداخ میں تعینات بھارتی فوجی (فائل)
لداخ میں تعینات بھارتی فوجی (فائل)

بھارت نے مشرقی لداخ کی گلوان وادی پر چین کے دعوے کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''یہ دعویٰ مبالغہ آمیز اور ناقابل قبول'' ہے۔ ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) پر کشیدگی کو ختم کرانے کے سلسلے میں جمعے کے دن ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح کی بات چیت متوقع ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے ایک آن لائن پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ بھارت سرحدی علاقوں میں امن و امان کی بحالی اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کو دور کرنے کی ضرورت کا قائل ہے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔

گلوان وادی کے تعلق سے بھارت اور چین کے درمیان اختلافات ہیں۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ گلوان وادی ایل اے سی پر اس کی سرحد کے اندر پڑتی ہے جبکہ چین اس پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ وادی ایل اے سی پر اس کی سرحد کے اندر ہے۔

گلوان وادی ہی میں 15 جون کو دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد ٹکراو ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس تصادم میں چین کے کم از کم 45 فوجی یا تو ہلاک ہوئے یا زخمی ہوئے۔ چین نے نقصان کی بات تسلیم کی، لیکن کتنے فوجی مارے گئے اس پر اس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

اس سلسلے میں اس نے مرکزی وزیر اور سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ کے اس دعوے پر سخت رد عمل ظاہر کیا تھا کہ اس ٹکراو میں چین کے 45 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کا الزام تھا کہ بھارت کی وزارت خارجہ اور وہاں کی میڈیا اس بارے میں بے بنیاد خبریں پھیلا رہے ہیں۔

فریقین ایک دوسرے پر ایل اے سی کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کا الزام عاید کرتے ہیں۔ بھارت گلوان وادی میں ایک سڑک اور پل کی تعمیر کر رہا۔ پل کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ چین کا الزام ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ تعمیرات کر رہا ہے۔

انوراگ سری واستو کا کہنا ہے کہ ایل اے سی کا سختی کے ساتھ احترام کیا جانا چاہیے، کیونکہ سرحدی علاقے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے اتوار کے روز چینی وزیر خارجہ وانگ ای کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے ہونے والی بات چیت میں ایل اے سی اور گلوان وادی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے سلسلے میں بھارت کا موقف واضح کر دیا تھا۔

ان کے بقول، قومی سلامتی کے مشیر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے سرحد کے بارے میں ہمیشہ ذمہ دارانہ پوزیشن اختیار کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کے بھی پابند ہیں۔

یاد رہے کہ چینی اور بھارتی نمائندوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد پیر کے روز دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کی جانب سے بیانات جاری کیے گئے تھے جو کہ ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق دونوں ملکوں میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ سرحدی تنازع پر خصوصی نمائندے بات چیت جاری رکھیں گے۔ ایل اے سی کی موجودہ صورت حال کو بدلنے کی کوئی یکطرفہ کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں ملکوں نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ ایل اے سی کا پورا احترام کریں گے۔

دوسری جانب چینی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ گلوان وادی میں حالیہ دنوں میں جو بھی صحیح یا غلط ہوا وہ بالکل واضح ہے۔ چین اپنی علاقائی خود مختاری اور سرحد پر امن و استحکام کا تحفظ پوری قوت سے کرے گا۔ فریقین کو خطرات پیدا کرنے کے بجائے اسٹرٹیجک جائزے کا پابند ہونا چاہیے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ "ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت عوامی رائے عامہ کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے، دوطرفہ بات چیت اور تعاون کو آگے بڑھانے اور اختلافات کو ہوا دینے اور پیچیدہ امور سے بچنے کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔"

وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں کے درمیان فوجیوں کی واپسی اور کشیدگی کو کم کرنے کے سلسلے میں رضامندی ہوئی تھی اس کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں ملکوں کے سفارت کار اور فوجی اہلکار بات چیت جاری رکھیں گے۔

ان کے بقول، سرحدی امور سے متعلق مشاورت اور رابطہ کاری کے تعلق سے قائم ورکنگ میکینزم کی اگلی میٹنگ جلد ہی ہونے کی توقع ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ ملاقات جمعے کے روز متوقع ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG