رسائی کے لنکس

بابری مسجد حملہ کیس، ’بی جے پی‘ کے راہنماؤں پر مقدمے کا حکم


سابق نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی (فائل فوٹو)
سابق نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی (فائل فوٹو)

مسجد مسمار کیے جانے کے بعد ملک میں ہندو مسلم فسادات بھی شروع ہوئے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔

بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے 25 سال قبل تاریخی بابری مسجد کو مسمار کیے جانے کے واقعے پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی "بی جے پی" کے چار راہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔

قبل ازیں ایک ماتحت عدالت ان چاروں راہنماؤں پر عائد کیے جانے والے الزامات سے انھیں بری کر چکی تھی۔

ان راہنماؤں میں سابق نائب وزیراعظم لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سنگھ شامل ہیں۔

ملک کی اہم تحقیقاتی ایجنسی "سنٹرل بورڈ آف انویسٹیگیشن" یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے معاملے میں بی جے پی کے سینیئر راہنماؤں پر عائد الزامات کی تحقیقات کو بحال کیا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے بدھ کو کہا کہ یہ مقدمہ لکھنو میں چلایا جائے گا اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت کرتے ہوئے دو سال میں اسے نمٹایا جائے۔

ان راہنماؤں پر الزام تھا کہ انھوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں جس سے ایودھیا میں بابری مسجد کے قریب خیمہ زن ان کے ہزاروں ہندو حامیوں نے مسجد پر حملہ کر کے اسے مسمار کر دیا۔

اس واقعے کے بعد ملک میں ہندو مسلم فسادات بھی شروع ہوئے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔

انتہا پسند ہندوؤں بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان کا یہ استدلال تھا کہ سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی اس مسجد کے مقام پر پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا لہذا وہ دوبارہ یہاں مندر بنائیں گے۔

جن راہنماؤں پر الزام عائد کیا گیا ان کا موقف رہا کہ مسجد پر حملہ ہندو کارکنوں کی طرف سے اچانک سے شروع ہو جانے والا ایک ردعمل تھا۔

یہ واقعہ چھ دسمبر 1992 کو پیش آیا تھا اور کلیان سنگھ اس وقت اس ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ تھے لیکن ان دنوں وہ ریاست راجستھان کے گورنر ہیں جس کی وجہ سے انھیں استثنیٰ حاصل ہے اور جب تک وہ اس عہدے پر رہیں گے ان کے خلاف مقدمہ شروع نہیں کیا جا سکے گا۔

XS
SM
MD
LG