رسائی کے لنکس

'پاکستان اور ایران کی کشیدگی بڑھی تو بھارت بھی متاثر ہو گا'


بھارت نے پاکستان کے صوبے بلوچستان کے سرحدی علاقے میں ایرانی سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کی ڈھکے چھپے الفاظ میں حمایت کی ہے۔ تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ معاملہ دو ملکوں کے درمیان کا ہے اور انھوں نے یہ کارروائیاں اپنے دفاع میں کی ہیں۔ مبصرین کے مطابق وہ کھل کر کسی ایک کی طرفداری سے بچ رہا ہے۔

نئی دہلی کے مبصرین کے خیال میں یہ ایک سنگین عالمی صورتِ حال ہے۔ دونوں ملکوں کو باہمی مذاکرات سے مسئلے کو حل کرنا چاہیے کیوں کہ اگر خطے میں ایران کی سرگرمیاں بڑھتی ہیں تو فطری طور پر امریکہ بھی مداخلت کرے گا اور ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ اس صورتِ حال سے بھارت بھی متاثر ہو گا۔

بھارت کا ردِعمل

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک مختصر بیان جاری کر کے اس بات پر زور دیا کہ بھارت دہشت گردی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ وہ اس معاملے پر ’زیرو ٹالسنس‘ کی پالیسی پر قائم ہے۔

نئی دہلی کے عالمی امور کے تجزیہ کار ایران اور پاکستان کے درمیان اس کشیدہ صورتِ حال کو الگ الگ نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن بیشتر کا خیال ہے کہ یہ کشیدگی خطے کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ بھارت ہر اس ملک کے ساتھ ہے جو دہشت گردی کے خلاف ہے۔ اسی لیے اس نے اس معاملے میں ایران کی حمایت کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایران نے پاکستان میں مبینہ دہشت گردی کے ٹھکانے کے خلاف کارروائی کی۔ لہٰذا بھارت نے اس کی ستائش کی کیوں کہ بھارت بھی دہشت گردی کے خلاف ہے اور اس کے خلاف متعدد بار کارروائیاں کر چکا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کا مخالف ہے اور اس نے انسدادِ دہشت گردی کے متعدد آپریشن کیے ہیں جن میں بہت سے دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ وہاں کی عدالتوں میں دہشت گرد گروپوں کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں بھی چل رہی ہیں۔

شنکر پرساد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران ایک طرف پاکستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل حماس، حزب اللہ اور حوثی ملیشیا کی حمایت کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان تنظیموں کو دہشت گرد تنظیم نہیں مانتا جب کہ وہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ انھوں نے اسے ایران کا دہرا رویہ قرار دیا۔

ان کے مطابق پوری دنیا کا یہی حال ہے۔ جب کسی ملک کے خلاف دہشت گرد کارروائی ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ لیکن جب دوسرے ملکوں پر دہشت گرد حملے ہوتے ہیں تو وہ خاموش رہتا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت نے سات اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے حملے کی مذمت کی تھی اور اسے دہشت گردی قرار دیا تھا۔ لیکن اس نے تاحال حماس کو دہشت گرد گروپ قرار نہیں دیا ہے۔ حالاں کہ بھارت میں اسرائیلی سفیر بھارت سے ایسا کرنے کی بارہا اپیل کر چکے ہیں۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار حسن کمال ایران کی حمایت والے بھارت کے بیان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ ان کے بقول چین بھارت کی سرحد کے اندر قبضہ کر کے بیٹھا ہے۔ لیکن وزیرِ اعظم نے اس کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ لہٰذا ایران کی حمایت میں بھار ت کا بیان غیر اہم ہے۔

انھوں نے دہشت گردی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ ایران میں بھی بلوچی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ لہٰذا اس معاملے کو اسی تناطر میں دیکھا جانا چاہیے۔

ایک اور سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے خیال میں اس وقت عالمی اور علاقائی سطح پر اس بات پر تشویش ہے کہ کہیں یہ معاملہ بڑھ نہ جائے۔ کیوں کہ اگر یہاں ایران کی مداخلت بڑھے گی تو فطری طور پر امریکہ کی بھی مداخلت کرے گا اور خطے میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی۔ اس صورت میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی کشیدگی بڑھے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنہوں نے کہا کہ اگر معاملہ زیادہ بڑھتا ہے تو بھارت بھی اس سے متاثر ہو گا۔ ان کے بقول بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ ایران اور پاکستان کو باہمی مذاکرات سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ کا یہ بیان بہت اہم ہے کہ ایران نے دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے اور یہ کہ ہم بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا بھی کہنا ہے کہ اس نے ایرانی عناصر کے خلاف نہیں بلکہ ان پاکستانی عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے جو ایران میں موجود ہیں۔

ان کے بقول ایران اور پاکستان کے درمیان یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے یہ الزام لگاتا آ رہا ہے کہ ایران میں ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستانی حکومت کے خلاف کارروائی کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ایران بھی الزام لگاتا رہا ہے۔

'ایران، پاکستان کشیدگی بڑھنے کا خدشہ کم ہے'

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق اس کارروائی سے ایران اور پاکستان کے درمیان تلخی بڑھنے کا اندیشہ کم ہے۔ کیوں کہ ایران نے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کی ہے اور پاکستان نے اپنے مخالفین کے خلاف۔

سینئر تجزیہ کار اور اخبار ’دی ہندو‘ کی سفارتی امور کی ایڈیٹر سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کی وجہ سے مغربی ایشیا میں ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی، یمن میں امریکی کارروائی اور بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کے باوجود بھارت کا بیان ایران کی حمایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔ جہاں دونوں اطراف میں بلوچی آباد ہیں۔ پاکستان میں صوبہ بلوچستان ہے تو ایران میں سیستان بلوچستان ہیں۔

ان کے بقول دونوں ملکوں کو اپنے یہاں ان گروپوں کی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ لیکن ایک دوسرے کی سرحد کے اندر ان گروپوں کے مراکز پر بغیر اطلاع کے حملے کا یہ معاملہ غیر معمولی ہے۔

ان کے خیال میں ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ایران نے ایک حکمتِ عملی کے تحت اسی روز پاکستانی سرحد کے اندر حملہ کیا جس روز اس نے عراق اور شام میں بیلسٹک میزائیوں سے حملہ کیا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اسرائیلی افواج کے جاسوسی ٹھکانے اور ایران مخالف دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروئی کی ہے۔

خیال رہے کہ ایران کی یہ کارروائی بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے ایران کے دو روزہ دورے کے موقع پر ہوئی ہے۔ وہ 15 اور 16 جنوری کو ایران کے دورے پر تھے۔ جہاں انھوں نے صدر ابراہیم رئیسی اور اپنے ایرانی ہم سے ملاقات اوربات چیت کی۔

جے شنکر 19 اور 20 جنوری کو یوگنڈا میں منعقد ہونے والے ناوابستہ کانفرنس کے اجلاس میں ایک بار پھر اپنے ایرانی ہم منصب سے ملنے والے ہیں۔ جب کہ توقع ہے کہ ایران کی ’سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل‘ کے سیکریٹری علی اکبر احمدیان جلد ہی نئی دہلی کا دورہ کریں گے اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات اور مذاکرات کریں گے۔

ایس جے شنکر اور ایران کے اس اعلیٰ عہدے دار کے دوروں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملک باہمی سفارتی تعلقات کو، جو حالیہ عرصے میں کچھ سردمہری کے شکار ہوئے ہیں، ایک بار پھر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG