سپریم کورٹ نے کیرالہ حکومت سے کہا ہے کہ وہ چند روز پہلے قدیم سبری مالا مندر میں داخل ہونے والی دو عورتوں کو 24 گھنٹے تحفظ فراہم کرے۔
یہ دونوں سپریم کورٹ کی جانب سے 10 سے 50 سال تک کی عمر کی خواتین کے لیے مندر میں داخلے پر صدیوں سے جاری پابندی ختم کرنے کے حکم کے بعد دو جنوری کو مندر میں داخل ہونے والی اولین خاتون عقیدت مند تھیں۔
مندر میں ان کے داخلے کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور انہیں دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔ جس کے بعد انہیں کچھ دنوں کے لیے روپوش ہونا پڑا تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر عدالت سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں تین رکنی بینچ نے کالج کی ایک لیکچرر اور سی پی آئی ایم ایل کی کارکن 42 سالہ بندو اور سول سپلائی محکمے کی ایک ملازمہ 44 سالہ کنک درگا کی درخواست پر انھیں تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ بندو کوزی کوڈ ضلع اور درگا ملاپورم کی رہائشی ہیں۔
دونوں خواتین دو جنوری کو پولیس کے تحفظ میں مندر میں داخل ہوئی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب 10 اور 50 سال عمر کے درمیان کی خواتین مندر میں پہنچیں۔ ان کے داخلے کے بعد پوری ریاست میں احتجاج کا سلسلہ چل پڑا تھا۔ بی جے پی اور کانگریس کے کارکنوں نے ایک روزہ ہڑتال بھی کی۔
ان واقعات کے بعد دونوں خواتین پولیس تحفظ میں کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہو گئی تھیں۔ لیکن جب منگل کے روز کنک درگا اپنے گھر پہنچیں تو ان کی ساس نے ان پر ڈنڈے سے حملہ کیا۔ ان کے سر پر چوٹ آئی اور انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
ذرائع کے مطابق دونوں خواتین کی رہائش کے موجودہ مقام کو مخفی رکھا جا رہا ہے۔ وائس آف امریکہ نے ان کی رہائش کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون کارکن اور دہلی یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر ببلی پروین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مندر میں داخل ہونے والی خواتین کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر مزید خواتین بھی مندر میں جانا چاہیں تو انہیں بھی سیکورٹی فراہم کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ جب عدالت نے عورتوں کو مندر میں جانے کی اجازت دے دی ہے تو پھر کسی کی جانب سے مخالفت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ صرف سبری مالا مندر کا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے بہت سے مندر ہیں جہاں عورتوں پر ان کے مخصوص ایام کی وجہ سے مندر میں جانے پر پابندی ہے۔
انھوں نے اس پابندی کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین نے ہمیں مساوی حقوق دیے ہیں جسے کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔
خیال رہے کہ مذکورہ خواتین کے مندر سے نکلنے کے بعد ہیڈ پجاری کے حکم پر گنگا جل سے مندر کی تطہیر کی گئی۔
ریاستی حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے سینئر وکیل وجے ہنساریہ نے عدالت کو بتایا کہ ان دونوں خواتین کے ساتھ ساتھ مندر میں داخل ہونے والی تمام عقیدت مند عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک 51 عورتیں مندر میں داخل ہو چکی ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواستیں دینے والوں کے وکیل میتھیو نیدومپارہ نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مندر میں ایک بھی عورت داخل نہیں ہو سکی ہے۔
28 ستمبر کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی آئینی بینچ نے تمام عمر کی خواتین کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ عورتوں کے مندر میں داخلے پر پابندی آئین کے منافی ہے۔
یاد رہے کہ 10 سال سے50 سال کی عمروں کی عورتوں پر، اس وجہ سے مندر میں داخل ہونے پر صدیوں سے پابندی عائد تھی کہ یہ ماہواری کی عمر ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کی سب سے زیادہ مخالفت بی جے پی کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سیاسی اسباب سے ہے۔