رسائی کے لنکس

ٹوئٹر بند کرنے کی دھمکی نہیں دی: بھارت 


 ٹوئٹر کا لوگو : فائل فوٹو
ٹوئٹر کا لوگو : فائل فوٹو

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ٹویٹر کے شریک بانی کے اس الزام کو جھوٹ قرار دیا ہے کہ بھارت نے انہیں یہ دھمکی دی ہے کہ اگر ٹوئٹر نے کسانوں کے مظاہروں سے نمٹنے کے سلسلے میں حکومتی اقدامات پر تنقیدی اکاؤنٹس روکنے سے متعلق احکامات کی تعمیل نہ کی تو ٹوئٹر کو ملک میں بند کر دیا جائے گا ۔

ٹویٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی نے، جو 2021 میں ٹوئٹر کے سی ای او کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے ، پیر کے روز کہا کہ بھارتی حکومت نے ٹویٹر کو یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اس نے بعض پوسٹس کو ہٹانے کی درخواستوں پر عمل نہیں کیا تو اس کے عملے پر چھاپے مارے جائیں گے۔

ڈورسی نے یوٹیوب کے نیوز شو ،بریکنگ پوائنٹس، کو ایک انٹرویو میں کہا،" ان طریقوں سے ظاہر ہوا جیسے: 'ہم بھارت میں ٹویٹر کو بند کر دیں گے'، جو ہمارے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے؛ 'ہم آپ کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے ماریں گے'، جو انہوں نے کیا... اور یہ بھارت ہے، ایک جمہوری ملک،" ۔

ڈورسی نے یوٹیوب پر کسی دستاویزی ثبوت کا حوالہ نہیں دیا اور رائٹرز ان کے مخصوص دعووں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ۔۔ ڈورسی سے مزید تبصرےکے لیے رابطہ نہیں ہو سکا۔

بھارت کے نائب وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی، راجیو چندر شیکھر نے، جو مودی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے دار ہیں، ڈورسی کے دعووں کو مکمل جھوٹ قرار دیا۔

ٹوئٹر کے شریک بانی ، ، جیک ڈورسی، فائل فوٹو
ٹوئٹر کے شریک بانی ، ، جیک ڈورسی، فائل فوٹو

چندرشیکھر نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں کہا، "کوئی بھی جیل نہیں گیا اور نہ ہی ٹویٹر کو بند کیا گیا۔ ڈورسی کی ٹویٹر حکومت کے لئے بھارتی قانون کی خودمختاری کو قبول کرنا دشوار تھا ۔ انہوں نے مزید وضاحت نہیں کی۔

ٹویٹر نے، جسے ایلون مسک نے گزشتہ سال 44 ارب ڈالر کے ایک سودے میں خریدا تھا، ڈورسی کے الزامات یا بھارتی حکومت کے ردعمل پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

چندر شیکھر نے کہا کہ ڈورسی کے تحت کام کرنے والےٹوئٹر اور ان کی ٹیم کی جانب سے بھارتی قانون کی بار بار (اور) مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ٹویٹر کو بھارت میں پلیٹ فارم سے غلط معلومات کو ہٹانے میں مسئلہ تھا ۔ وزیر نےمسک کا نام لیے بغیر کہا کہ ٹویٹر جون 2022 سے تعمیل کر رہا ہے۔

ڈورسی کے تبصروں نے ایک بار پھر مودی کے تحت کام کرنے والی غیر ملکی ٹکنالوجی کمپنیوں کو درپیش جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے ، جن کی حکومت اکثر گوگل ، فیس بک اور ٹویٹر پر اس بارے میں یہ تنقید کر چکی ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر جعلی یا بھارت مخالف مواد سے نمٹنے کے لئے کافی کام نہیں کر رہے ہیں، یا قواعد کی تعمیل نہیں کر رہے ۔

ٹویٹر کے سابق سی ای او کے تبصروں پر میڈیا اور سیاست دانوں نے بڑے پیمانے پر توجہ مبذول کی ہے کیونکہ عالمی کاروباری رہنماؤں یا کمپنیوں کے لیے مودی کی حکومت پر عوامی طور پر تنقید کرنا غیر معمولی بات ہے۔

بھارت میں 2021 میں کسانوں کے مظاہروں کا ایک منظر۔ فائل فوٹو۔
بھارت میں 2021 میں کسانوں کے مظاہروں کا ایک منظر۔ فائل فوٹو۔

یوٹیوب انٹرویو کے بعد، کئی اعلیٰ بھارتی عہدیداروں نے ڈورسی کے تبصروں اور ٹویٹر کی جانب سے ماضی میں غلط معلومات سے نمٹنے پر تنقید کی۔ لیکن بھارت میں اپوزیشن کے کچھ قانون سازوں نے حکومت پر 2020-2021 کے احتجاج کے دوران کسانوں کی آوازوں کو دبا نے کا الزام عائد کیا ، جو ان سخت ترین چیلنجوں میں سے ایک ہے جن کا مودی کو سامنا ہوا ہے ۔

مودی کی حکومت نے بالآخر ان قوانین کو منسوخ کر دیا تھا ، جن کے بارے میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ کسان مخالف تھے۔ اس نے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مخصوص موادکو ہٹانے کےاپنے حکم کو برقرار رکھا ہے۔

" مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی کی ترجمان سپریہ شری نات نے کہا کہ ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر وہ شخص جوذرا سی بھی جرات دکھانے کی ہمت کرے گا اسے دبا دیا جائے گا، ۔

مودی انتظامیہ نے اپنے ناقدین کی ان تجاویز کی مسلسل تردید کی ہے کہ اس نے تقریر کی آزادی پر قدغن لگا دی ہے۔

ڈورسی نے اپنے یوٹیوب انٹرویو میں، تفصیلات بتائے بغیر یہ بھی کہا کہ کسانوں کے احتجاج کے دوران بہت سے بھارتی مواد کو ہٹانے کی درخواستیں مخصوص صحافیوں کے بارے میں تھیں جو حکومت پر تنقید کرتے تھے۔

اس رپوٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG