واشنگٹن —
بھارت نے اپنی ایک سفارت کار کی امریکہ میں گرفتاری پر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کی جانب سے "اظہارِ افسوس" کو ناکافی قرار دیتے ہوئے سفارت کار کے خلاف مقدمہ واپس لینے اور اوباما انتظامیہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو بھارتی حکومت کے دو وزرا نے اپنے اپنے علیحدہ بیانات میں کہا کہ ان کا ملک واشنگٹن کے ساتھ دوستی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا لیکن امریکی حکام کے "ناروا سلوک" کا نشانہ بننے والی سفارت کار کا ہر ممکن دفاع کیا جائے گا۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ امریکہ کو نیویارک کے بھارتی قونصل خانے میں تعینات خاتون سفارت کار دیویانی کھوبرا گڑے کے خلاف درج مقدمہ ہر صورت ختم کرنا ہوگا۔
کھوبرا گڑے کو گزشتہ ہفتے نیویارک پولیس نے ایک بھارتی خاتون کی ویزہ درخواست میں دروغ گوئی کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا جنہیں وہ اپنے ہاں ملازمہ رکھنا چاہتی تھیں۔
انتالیس سالہ خاتون سفارت کار پر الزام ہے کہ وہ ملازمہ کو ویزہ درخواست میں درج تنخواہ سے کم پیسے دے رہی تھیں۔
بھارتی سفارت کار نے اپنی ایک ای میل میں دعویٰ کیا ہے کہ 12 دسمبر کو انہیں حراست میں لیے جانے کے بعد انہیں ہتھکڑی لگائی گئی تھی جب کہ امریکی حکام نے دورانِ حراست انہیں عریاں کرکے تلاشی بھی لی تھی۔
خاتون سفارت کار کے بقول دورانِ تفتیش ان سے برتے جانے والے "ناروا سلوک' کے باعث وہ متعدد بار آبدیدہ ہوئیں جب کہ انہیں سفارتی استثنیٰ کے باوجود عام مجرموں اور منشیات کے عادی قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔
دیویانی نے خود پر عائد ویزا فراڈ اور ملازمہ کی تنخواہ کے بارے میں غلط بیانی کرنے کے الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے جس کے بعد انہیں ڈھائی لاکھ ڈالرز کے زرِ ضمانت کے عوض رہا کیا جاچکا ہے۔ تاہم ان کا پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات بدستور امریکی حکام کی تحویل میں ہیں۔
دونوں الزامات ثابت ہونے پر انہیں 15 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
امریکی محکمۂ انصاف کے حکام نے بھی بھارتی خاتون سفارت کار کی عریاں تلاشی لیے جانے کی تصدیق کی ہے جب کہ نیویارک کے وکلائے استغاثہ نے دیویانی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو معمول کی کاروائی قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا ہے۔
بھارتی حکومت نے اپنی خاتون سفارت کار کی گرفتاری پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور بھارت میں اس واقعے پر امریکہ کے خلاف سخت احتجاج کیا جارہا ہے۔
جمعرات کا دارالحکومت نئی دہلی میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ ان کی حکومت نے امریکہ سے واقعے کی وضات طلب کی ہے اور کھوبرا گڑے کے خلاف درج دونوں مقدمات فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سے قبل بدھ کو امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن کے ساتھ خاتون سفارت کار کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس پر "اظہارِ افسوس" کیا تھا۔
تاہم بھارتی حکومت کے رہنماؤں نے جان کیری کے ردِ عمل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بھارتی تشویش کا ازالہ نہیں ہوتا۔
بھارت کے پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو خاتون سفارت کار کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے پر "اظہارِ افسوس" کرنے کے بجائے معافی مانگنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اسی صورت میں مطمئن ہوگا جب امریکی حکومت دیویانی کے خلاف درج مقدمات واپس لے گی اور اس معاملے میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے باضابطہ معافی مانگے گی۔
بھارتی حکومت نے بطورِ احتجاج ملک میں تعینات امریکی سفارت کاروں کو حاصل بعض مراعات واپس لے لی ہیں جب کہ نئی دہلی میں بھارتی سفارت خانے کی سکیورٹی کے لیے لگائی گئیں رکاوٹیں بھی ہٹادی گئی ہیں۔
بھارتی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران نے بطورِ احتجاج رواں ہفتے نئی دہلی کا دورہ کرنے والے ایک امریکی وفد کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی انکار کردیا تھا جب کہ بھارتی حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی امریکہ کے خلاف عوامی مظاہرے اور احتجاج کر رہی ہیں۔
جمعرات کو بھارتی حکومت کے دو وزرا نے اپنے اپنے علیحدہ بیانات میں کہا کہ ان کا ملک واشنگٹن کے ساتھ دوستی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا لیکن امریکی حکام کے "ناروا سلوک" کا نشانہ بننے والی سفارت کار کا ہر ممکن دفاع کیا جائے گا۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ امریکہ کو نیویارک کے بھارتی قونصل خانے میں تعینات خاتون سفارت کار دیویانی کھوبرا گڑے کے خلاف درج مقدمہ ہر صورت ختم کرنا ہوگا۔
کھوبرا گڑے کو گزشتہ ہفتے نیویارک پولیس نے ایک بھارتی خاتون کی ویزہ درخواست میں دروغ گوئی کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا جنہیں وہ اپنے ہاں ملازمہ رکھنا چاہتی تھیں۔
انتالیس سالہ خاتون سفارت کار پر الزام ہے کہ وہ ملازمہ کو ویزہ درخواست میں درج تنخواہ سے کم پیسے دے رہی تھیں۔
بھارتی سفارت کار نے اپنی ایک ای میل میں دعویٰ کیا ہے کہ 12 دسمبر کو انہیں حراست میں لیے جانے کے بعد انہیں ہتھکڑی لگائی گئی تھی جب کہ امریکی حکام نے دورانِ حراست انہیں عریاں کرکے تلاشی بھی لی تھی۔
خاتون سفارت کار کے بقول دورانِ تفتیش ان سے برتے جانے والے "ناروا سلوک' کے باعث وہ متعدد بار آبدیدہ ہوئیں جب کہ انہیں سفارتی استثنیٰ کے باوجود عام مجرموں اور منشیات کے عادی قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔
دیویانی نے خود پر عائد ویزا فراڈ اور ملازمہ کی تنخواہ کے بارے میں غلط بیانی کرنے کے الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے جس کے بعد انہیں ڈھائی لاکھ ڈالرز کے زرِ ضمانت کے عوض رہا کیا جاچکا ہے۔ تاہم ان کا پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات بدستور امریکی حکام کی تحویل میں ہیں۔
دونوں الزامات ثابت ہونے پر انہیں 15 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
امریکی محکمۂ انصاف کے حکام نے بھی بھارتی خاتون سفارت کار کی عریاں تلاشی لیے جانے کی تصدیق کی ہے جب کہ نیویارک کے وکلائے استغاثہ نے دیویانی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو معمول کی کاروائی قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا ہے۔
بھارتی حکومت نے اپنی خاتون سفارت کار کی گرفتاری پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور بھارت میں اس واقعے پر امریکہ کے خلاف سخت احتجاج کیا جارہا ہے۔
جمعرات کا دارالحکومت نئی دہلی میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ ان کی حکومت نے امریکہ سے واقعے کی وضات طلب کی ہے اور کھوبرا گڑے کے خلاف درج دونوں مقدمات فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سے قبل بدھ کو امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن کے ساتھ خاتون سفارت کار کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس پر "اظہارِ افسوس" کیا تھا۔
تاہم بھارتی حکومت کے رہنماؤں نے جان کیری کے ردِ عمل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بھارتی تشویش کا ازالہ نہیں ہوتا۔
بھارت کے پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو خاتون سفارت کار کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے پر "اظہارِ افسوس" کرنے کے بجائے معافی مانگنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اسی صورت میں مطمئن ہوگا جب امریکی حکومت دیویانی کے خلاف درج مقدمات واپس لے گی اور اس معاملے میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے باضابطہ معافی مانگے گی۔
بھارتی حکومت نے بطورِ احتجاج ملک میں تعینات امریکی سفارت کاروں کو حاصل بعض مراعات واپس لے لی ہیں جب کہ نئی دہلی میں بھارتی سفارت خانے کی سکیورٹی کے لیے لگائی گئیں رکاوٹیں بھی ہٹادی گئی ہیں۔
بھارتی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران نے بطورِ احتجاج رواں ہفتے نئی دہلی کا دورہ کرنے والے ایک امریکی وفد کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی انکار کردیا تھا جب کہ بھارتی حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی امریکہ کے خلاف عوامی مظاہرے اور احتجاج کر رہی ہیں۔