بھارت میں انسانی حقوق کی معروف سرگرم کارکن اروم شرمیلا نے سولہ سال سے جاری بھوک ہڑتال کو ختم کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اُس قانون کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی جو ملک کی شمالی مشرقی ریاست منی پور میں سیکورٹی فورسز کو بغیر کسی جوابدہی کے خصوصی اختیارات تفویض کرتا ہے۔
شرمیلا نے منگل کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے اپنے ہاتھ سے شہد چاٹ کر اپنی بھوک ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں ںے کہا کہ "وہ اس لمحے کو کبھی بھی نہیں بھولیں گی"۔
قبل ازیں منگل کو ایک جج نے اس وقت ان کی ضمانت منطور کر لی جب انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کر کےکھانا پینا شروع کرنے کا کا ارادہ کرلیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے ایک طویل عرصے سے سرگرم شرمیلا نومبر 2000 سے بھوک ہڑتال پر تھیں ۔ وہ اپنی مرضی سے کھانے پینے سے انکاری تھیں اور اسی وجہ سے انہیں ایک اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا جہاں انہیں ایک ٹیوب کے ذریعے زبردستی خوراک فراہم کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ انتخابات میں منی پور سے حصہ لیں گے جو ان کا آبائی علاقہ ہے۔
شرمیلا نے اس وقت بھوک ہڑتال شروع کی جب سکیورٹی فورسز نے ایک خصوصی قانون کے تحت حاصل اختیارات کی بنا پر منی پور میں دس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ایک طویل عرصے سے اس ریاست کو سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور علیحدگی پسندوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے تشدد کا سامنا ہے۔
شرمیلا نے کہا کہ "میرے پاس جو کچھ بھی ہے میں اسے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کروں گی سب سے پہلی ترجیح اس کالے قانونی کو ختم کرنا ہو گی"۔
ان پر خود کشی کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ایسا کرنا بھارتی قانون کے تحت ایک جرم ہے۔
ان کی طرف سے اپنے احتجاج کو ختم کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب وفاقی حکومت نے سکیورٹی فورسز سے کہا ہے کہ وہ متنازع علاقے کشمیر میں احتجاج کرنے والوں سے نمٹتے ہوئے تحمل سے کام لیں۔
آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ سکیورٹی فورسز کو کسی قانونی جوابدہی کے خوف کے بغیر اور بغیر کسی ورانٹ کے مشتبہ باغیوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔