رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں بیف کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بڑے گوشت یا بیف کے لیے گائیں ذبح کرنے یا اس طرح کا کاروبار کرنے والوں اور مویشی اسمگلروں کو اب سخت گیر قانون، پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند کیا جائے گا۔

جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس، دلباغ سنگھ نے پولیس افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تمام ضلعی پولیس سربراہاں کو ہدایت جاری کی ہے کہ منشیات کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ مویشی اسمگلروں پر پی ایس اے لاگو کیا جائے۔

انہوں نے پولیس افسران سے یہ بھی کہا کہ ایسے افراد کی فوری طور پر نشاندہی کی جائے جو منشیات کا کاروبار کرتے ہیں یا مویشی اسمکلنگ کے عادی مجرم ہیں اور پھر اُن کے خلاف مقدمے درج کرکے ترجیحی بنیاد پر عدالتوں میں چارج شیٹ پیش کیے جائیں۔

پی ایس اے کیا ہے؟

سال 1978ء سے نافذ پی ایس اے کے تحت ریاست میں کسی بھی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلینج کیا جا سکتا ہے۔ نیز، ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔

اس قانون کو جب 40 سال پہلے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا تو اُس وقت کشمیر کے قدآوار سیاسیدان شیخ محمد عبداللہ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ اُس وقت کہا گیا تھا کہ ریاست میں جنگلات سے لکڑی کی غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ کا توڑ کرنے کے لیے اس طرح کے سخت گیر قانون کا موجود ہونا ناگزیر ہے۔ تاہم، مختلف ریاستی حکومتوں نے اس قانون کا سیاسی مخالفین کے خلاف کھلے عام اور بے دریغ استعمال کیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

اس سال جون میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں پی ایس اے کو ایک ایسا قانون قرار دیدیا تھا، جو، اس کے بقول، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں انسداد جرم کے عدالتی نظام کو بالائے طاق رکھ کر احتسابی نظام، شفافیت اور انسانی حقوق کو نظر انداز کرتا ہے۔

ریاست کا اپنا تعزیراتی قانون تھا جو اب نہیں رہا

نئی دہلی کی طرف سے 5 اگست کو جموں و کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری کو ختم کرنے اور متنازعہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے اقدام کے بعد ریاست کا اپنا تعزیراتی قانون رنبیر پینل کوڈ ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ تعزیراتِ ہند یا انڈین پینل کوڈ نے لے لی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ریاست میں گزشتہ 154 برس سے نافذ وہ قانون بھی ناقابلِ عمل بن گیا ہے ’’جس کے تحت گاؤ کشی، بیف بیچنے اور خریدنے اور بلا اجازت مویشی کا کاروبار کرنے‘‘ پر پابندی عائد تھی۔

رنبیر پینل کوڈ کی دفعات 298 اے، 298 بی، 298 سی اور 298 ڈی میں گائے، بیل، بھینس سمیت تمام مویشیوں کو ذبح کرنے اور بڑے گوشت کی خرید و فروخت کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا تھا۔ ان قانونی شقوں میں گائے، بیل یا ان کے بچھڑے کو ذبح کرنے کے مرتکب شخص کے لیے 10 سال قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی گئی تھی۔

جرمانہ ذبح کیے گیے جانور کی قیمت کا پانچ گنا ہو سکتا تھا یا اس کا تعین کرنے کا اختیار عدالت کو تھا۔ اگر کسی شخص کے پاس سے ذبح شدہ جانور کا گوشت برآمد ہوجاتا اور اس پر جرم عدالت میں ثابت ہوجاتا، تو اُسے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی تھی۔ اس قانون کو مطلق العنان ڈوگرہ مہاراجہ نے 1862 میں نافذ کیا تھا۔ 1947 میں ڈوگرہ راج کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر میں شیخ محمد عبد اللہ کی قیادت میں قائم کی گئی۔ نام نہاد عوامی حکومت نے اس قانون کو برقرار رکھا۔

تعزیراتِ ہند اب جموں و کشمیر میں بھی لاگو

پانچ اگست کو بھارتی حکومت کی طرف سے آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے کو منسوخ کیے جانے کے فیصلے پر اس سال 31 اکتوبر سے باضابطہ عملدرآمد کے ساتھ ہی تعزیراتِ ہند نے رنبیر پینل کوڈ کی جگہ لے لی۔ نیز، تقریباً 300 ایسے وفاقی قوانین بھی جموں و کشمیر میں لاگو ہوگئے ہیں، جن کا دائرہ اس سے پہلے دفعہ 370 کی وجہ سے ریاست تک نہیں بڑھایا جاسکا تھا۔ دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو بھارتی وفاق میں خصوصی پوزیشن حاصل تھی۔

اس دفعہ کو 1950 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئینِ ہند میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کی ذیلی شق دفعہ 35 اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائداد خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وضائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے پشتنی یا مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔ نیز، دفعہ 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لئے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز ادارے کو حاصل تھا۔

تعزیراتِ ہند میں گاؤ کشی کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں

انڈین پینل کوڈ میں گاؤ کشی یا مویشی کا کاروبار کرنے یا انہیں ذبح کرنے کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ تاہم، قومی پالیسی کا تعین کرنے کے لیے آئینِ ہند کی دفعہ 48 کے تحت مقررہ کردہ اصولوں میں وفاق سے ریاستوں کی ایسے اقدامات اٹھانے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی بات کہی گئی ہے، جن کا مقصد مویشیوں کی نسل کو بڑھانا ہو۔ اس پس منظر میں بھارتی سپریم کورٹ نے 26 اکتوبر 2005 کو ایک اہم فیصلے میں مختلف ریاستوں کی حکومتوں کی طرف سے گاؤ کشی پر پابندی عائد کیے جانے کے آئینی جواز کو جائز قرار دیا تھا۔

بھارت میں اس وقت کیرالا، مغربی بنگال، آسام، اروناچل پردیش، میزورام، میگھالیا، ناگالینڈ اور تریپورہ کے بغیر تقریباً تمام ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں گاؤ کشی پر پابندی عائد ہے۔

تحفظِ گائے کے نام پر حملے اور تشدد

واضح رہے کہ بھارت میں حالیہ برسوں میں گؤ رکشا یا تحفظ گائے کے نام پر حملوں اور بلوائیوں کی طرف سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور حکام ان حملوں کو روکنے اور قصور واروں کو سزا دلانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG