رسائی کے لنکس

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ایک اور جھڑپ، چار مشتبہ عسکریت پسند ہلاک


(فائل)
(فائل)

ہفتے کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پُلوامہ میں حفاظتی دستوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں چار عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔

عہدیداروں نے بتایا ہے کہ بھارتی فوج، مقامی پولیس کے شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) اور وفاقی پولیس فورس 'سی آر پی ایف' نے پُلوامہ کے گاؤں حاجن پائین میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر ایک فوجی آپریشن شروع کیا جس کے دوران طرفین کے درمیان جھڑپ ہوئی جو چار عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر ختم ہوئی۔

مارے گئے عسکریت پسندوں میں سے تین مقامی باشندے تھے جب کہ ان کے چوتھے ساتھی کا تعلق مبینہ طور پر پاکستان سے تھا۔ چاروں کالعدم تنظیم جیشِ محمد سے وابستہ تھے جس کی تنظیم نے تصدیق کی ہے۔ جیشِ محمد نے دعویٰ کیا ہے کہ جھڑپ کے دوران کئی حفاظتی اہلکار ہلاک اور زخمی ہو گئے۔

عہدیداروں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی فوجی مارا گیا نہ زخمی ہوا۔

اس سے پہلے پُلوامہ ہی کے رنزی پورہ، بندرپورہ علاقے میں حفاظتی دستوں کے ساتھ ہوئی ایک مختصر جھڑپ کے دوران عسکری تنظیم حزب المجاہدین کا ایک رکن ہلاک ہو گیا تھا۔ تاہم، مقامی ذرائع کے مطابق جھڑپ کے دوران اُس کے دو ساتھی علاقے سے بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

ان ہلاکتوں کے بعد پُلوامہ کے کئی علاقوں میں عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ عینی شاہدین کے مطابق، حفاظتی دستوں نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں کی ٹولیوں پر آنسو گیس چھوڑی اور چھرے والی بندوقیں استعمال کیں۔ تقریبا "ایک درجن افراد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

شورش زدہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں 2018ء گزشتہ ایک دہائی کا خون ریز ترین سال ثابت ہوا ہے۔ سال کے دوران تشدد میں اب تک 446 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 258 عسکریت پسند، 97 حفاظتی اہلکار اور 91 عام شہری شامل ہیں۔ ریاست میں 2008ء میں تشدد کے دوران پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ گزشتہ برس یعنی 2017ء میں 384 افراد مارے گئے تھے۔

اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں پر مختلف سیاسی جماعتوں نے جس میں چند بھارت نواز جماعتیں بھی شامل ہیں دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر نئی دہلی اور اسلام آباد اور نئی دہلی اور کشمیری قیادت کے درمیان بیک وقت بات چیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے، تاکہ، ان کے بقول، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں جاری تشدد کے خاتمے کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینیئر لیڈر اور سابق وزیر نعیم اختر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہاں کشمیر میں آئے دن ہلاکتیں پیش آرہی ہیں۔ تشدد رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ہم اس تکلیف دہ صورتِ حال سے پچھلے تیس سال سےنکل ہی نہیں رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ گزشتہ ستر سال سے لٹکا ہوا ہے۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت اور نئی دہلی اور کشمیری قیادت میں بات چیت ہوئی تو حالات بڑی حد تک بہتر ہو جاتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "کشمیر میں جب تک اُمید کی فضا قائم نہیں ہوتی مجھے نہیں لگتا ان بچوں کو بندوق کی طرف مائل ہونے سے باز رکھا جاسکتا ہے۔ فوج اور دوسرے سکیورٹی فورسز اگر سمجھتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو مارنے سے وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں تو وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ اس سے حالات اور خراب ہو جائیں گے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہی نئی دہلی اور حریت کانفرنس (استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد) میں بھی سلسلہ جنبانی شروع ہونا چاہیئے"۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG