رسائی کے لنکس

رافیل جہاز اسکینڈل: بھارتی حکومت کی اخبار 'دی ہندو' کے خلاف مقدمے کی دھمکی


بھارت نے فراس سے 36 رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جس میں مبینہ طور پر تیس ہزار کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی۔
بھارت نے فراس سے 36 رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جس میں مبینہ طور پر تیس ہزار کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی۔

رافیل طیاروں کی خریداری کے معاہدے میں مبینہ کرپشن اور طیاروں کی حوالگی میں تاخیر سے متعلق معاملے پر سرکاری دستاویزات شائع کرنے پر بھارت کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ بھارت کے بڑے اخبار ’دا ہندو‘ کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت میں مقدمہ دائر کریں۔ اٹارنی جنرل نے دا ہندو پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ’چرائے گئی‘ سرکاری دستاویزات کو شائع کیا ہے۔ یہ دستاویز فرانس سے 36 رافیل طیارے خریدنے کے بھارت کے معاہدے سے متعلق ہیں۔ اور یہ مقدمہ اٹارنی جنرل کے مطابق بھارت کے ’آفیشل سیکریٹس ایکٹ‘ کے تحت دائر ہو سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کا مزید کہنا ہے کہ ’دا ہندو‘ کی جانب سے شائع کیے جانے والی دستاویزات کو عدالت میں پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم، عدالت میں کی جانے والی استدعا میں کہا گیا ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ اگر دستاویزات چوری ہو گئی تھیں تو طیاروں کی خرید کا یہ معاہدہ کیسے ایوارڈ کیا گیا؟

انہوں نے مزید کہا ہے کہ حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ ’دا ہندو‘ پر اس قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا جائے جس کے مطابق حکومت کے رازدارانہ معاملات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف، ’دا ہندو‘ میں اس معاملے پر شائع ہونے والے مضامین کے مصنف اور اخبار کے چئیرمین این رام کا کہنا ہے کہ یہ اشاعت مفاد عامہ میں کی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے، رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہم نے جو کچھ بھی شائع کیا ہے وہ قانونی ہے۔ اور ہم اس پر قائم ہیں‘‘۔

اس معاملے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ بھارت نے ایک تجدیدی پروگرام کے تحت فرانس سے آٹھ اعشاریہ سات بلین ڈالر مالیت کے طیاروں کا آرڈر دیا تھا تاکہ بھارتی فضائیہ میں سوویت زمانے کے طیاروں کو جدید طیاروں سے تبدیل کیا جا سکے۔

تاہم، طیاروں کی خرید کا یہ معاہدہ اس وقت اور بھی بڑے تنازعے کا شکار ہو گیا جب بھارت کی مرکزی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے ان طیاروں کی خرید کے لیے بھاری رقم دی ہے اور ساتھ ہی فرانس کی اس کمپنی ’ڈسالٹ ایوی ایشن‘ کو مجبور کیا ہے کہ وہ بھارتی بزنس مین، انیل امبانی کی کمپنی ’ریلائینس ڈیفنس‘ کو اپنے کاروبار میں شریک کریں۔ کانگریس کے مطابق، اس کمپنی کو دفاعی کانٹریکٹس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔

ڈسالٹ سے رابطہ کیا گیا تو اس کے ترجمان نے کمپنی کے سی ای او ایرک ٹریپیئر کی جانب سے قیمتوں اور کاروباری شراکت دار کے انتخاب کا حوالہ دیا۔ ٹریپئر اس سے پہلے طیاروں کی قیمت کے معاملے کا دفاع کر چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس بارے میں کوئی سکینڈل نہیں ہے اور نا ہی انہیں کاروباری شراکت دار کے انتخاب پر مجبور کیا گیا ہے۔

ریلائینس ڈیفنس نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور بات کرنے سے گریز کیا ہے۔

امبانی اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ کانگریس پارٹی کو کارپوریٹ مخالفین اپنے مفادات کے لیے گمراہ کر رہے ہیں۔

’دا ہندو‘ بھارت کا قدیم ترین اور سب سے زیادہ پڑھا جانے والا انگریزی روزنامہ ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران اب تک اس اخبار میں اس معاملے پر پانچ مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں حکومتی دستاویزات کے ساتھ ساتھ قیمتوں کے تعین کے سرکاری طریقہ کار کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

اس معاملے میں شامل افراد پر اگر الزام ثابت ہوا تو انہیں 14 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس قسم کی سزائیں بھارت کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس سے پہلے صحافیوں کو دی جا چکی ہیں اور بھارت میں انسانی حقوق کے علمبردار اس قانون کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کرتے ہیں کہ اس کے باعث آزادی اظہار پر قدغن لگتی ہے۔

اٹارنی جنرل وینو گوپال کا کہنا ہے کہ کوئی بھی دفاعی معاہدہ عوامی سطح پر دائر کی گئی کسی سڑک یا ڈیم کے خلاف پٹیشن کے برابر نہیں ہو سکتا اور سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ سیاست سے دور رہے۔

XS
SM
MD
LG