رسائی کے لنکس

بھارت: احتجاج کے باوجود ’اگنی پتھ اسکیم‘ کے تحت فوج میں بھرتی کی تاریخ کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی حکومت کی فوج میں قلیل مدتی بھرتی کی نئی اسکیم ’اگنی پتھ یوجنا‘ کے خلاف پیرکو ملک گیر ہرتال کی گئی جس کی وجہ سے مختلف ریاستوں میں معمولاتِ زندگی متاثر ہوئے۔ ریاستی حکومتوں نے ہڑتال کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے تھے۔

ہڑتال کے دوران دارالحکومت نئی دہلی اور اس کے مضافات نوئیڈا اور گروگرام میں دفعہ 144 نافذ رہی جب کہ پورے دن زبردست ٹریفک جام دیکھا گیا۔ریلوے کی وزارت کے مطابق پیر کو 350 ٹرینیں منسوخ کی گئیں جب کہ احتجاج کے نتیجے میں 1300 سے زائد ٹرینیں متاثر ہوئیں۔

ملک کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے دہلی میں جنتر منتر پر پارٹی رہنما راہل گاندھی سے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی چوتھے روز تفتیش اور اگنی پتھ اسکیم کے خلاف دھرنا دیا۔ نئی دہلی کے شیوا جی ریلوے اسٹیشن پر کانگریس کے کارکنوں نے ایک ٹرین کے سامنے جمع ہو کر اسے گھنٹوں روکے رکھا۔

پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے پارلیمنٹ ہاؤس سے راشٹر پتی بھون (ایوان صدر) تک پیدل مارچ کیا اور صدر کو ایک میمورنڈم پیش کرکے اگنی پتھ اسکیم واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

بھرتی کی تاریخ کا اعلان

پیر کو ملک گیر احتجاج کے دوران فوج نے مذکورہ اسکیم کے تحت بھرتیوں کے پہلے راؤنڈ کے آغاز کے لیے اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔ جس کے مطابق جولائی سے نوجوان کی رجسٹریشن شروع کی جائے گی۔

اعلامیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میڈیکل برانچ کے تکنیکی کیڈر کو چھوڑ کر مسلح افواج میں بھرتی ہونے کا یہ واحد راستہ ہوگا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق اگنی ویر ایک امتیازی درجہ ہوگا۔ اس اسکیم کے تحت تینوں مسلح افواج کے لیے پہلے سال 45 ہزار نوجوانوں کی بھرتی ہوگی۔

حکومت کی 14 جون کو اعلان کردہ اسکیم کے تحت ساڑھے 17 سال سے 21 سال کی عمر کے نوجوان فوج میں چار سال کے لیے بھرتی ہو سکیں گے۔

احتجاج شروع ہونے کے بعد حکومت نے قانون میں کئی ترامیم کیں جن میں عمر کی حد کو بڑھا کر 23 سال کر دیا گیا۔ لیکن یہ رعایت صرف پہلے سال کے امیدواروں کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ چار سال کی مدت کی تکمیل کے بعد 10 فی صد اگنی ویر یعنی نوجوانوں کو مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں جگہ مخصوص ہوگی۔

نئے طریقہ کار کے تحت سب سے پہلے بری فوج میں بھرتیاں شروع کی گئی ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اگنی ویر کی تنخواہ ایک جامع پیکج ہے اور وہ کسی بھی مہنگائی الاؤنس اور ملٹری سروس پے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اگنی ویر کو قابلَ اطلاق رسک، مشکلات، راشن، لباس اور سفری الاؤنس ملے گا۔ وہ اپنی ملازمت کی مدت کے لیے 48 لاکھ روپے کا لائف انشورنس کور حاصل کریں گے۔

اسی دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل منوج پانڈے نے کہا ہے کہ اگنی پتھ اسکیم نوجوانوں اور آرمی دونوں کے لیے مفید ہے۔ انہوں نے آرمی میں بھرتی ہونے کے خواہش مند نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ غلط اطلاعات سے گمراہ نہ ہوں۔

’اسکیم واپس نہیں ہو گی‘

انہوں نے نشریاتی ادارے ’آج تک‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسکیم واپس نہیں لی جائے گی تاہم اس کے نفاذ کے بعد اس میں بوقت ضرورت مثبت تبدیلیاں لائی جائیں گی۔

تینوں مسلح افواج کی اتوار کو ہونے والی مشترکہ نیوز کانفرنس میں بھی اسے واپس لیے جانے سے سختی سے انکار کیا گیا۔

احتجاج میں شامل افراد کو انتباہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ جو لوگ اس میں شامل ہوں گے ان کی بھرتی نہیں کی جائے گی۔ بھرتی کے لیے ہر امیدوار کو پولیس سے یہ سرٹیفکیٹ لانا ہوگا کہ وہ احتجاج میں شامل نہیں تھا۔

فوج کے امور سے متعلق محکمے میں ایڈیشنل سیکریٹری لیفٹننٹ جنرل انل پری نے کہا کہ مسلح افواج میں قانون شکنی، تشدد اور آتش زنی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس مشترکہ کانفرنس سے قبل وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے تینو ں مسلح افواج کے سربراہوں کے ساتھ مسلسل دو روز اجلاس کیا تھا۔ اسکیم کے بارے میں حکومت کا مؤقف ہے کہ اس سے ایک تو فوج پر آنے والے اخراجات کم ہوں گے اور دوسرے نوجوانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے فوج کی اوسط عمر کم ہوگی۔

خدشات اور شکایات

متعدد سابق فوجی حکام نے اس اسکیم کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج کو بجٹ کے نقطۂ نظر سے دیکھنا درست نہیں ہے۔

یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ چار سال کے بعد اگنی ویروں کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس سلسلے میں حکومت ماہرین کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سینئر تجزیہ کار رویندر کمار کا کہنا ہے کہ فوج میں سالانہ 90 ہزار جوانوں کی بھرتی ہوتی تھی جو گزشتہ دو سال سے بند ہے۔ اس وقت سالانہ 70 ہزار جوان ملازمت سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ فوج میں تین لاکھ مستقل جوانوں کی بھرتی کی ضرورت ہے۔ لیکن حکومت کہتی ہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اگنی ویروں کی تنخواہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں 30 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے جب کہ دہلی میں ایک ملازم کی کم سے کم اجرت 18 ہزار روپے ہے۔

’اگنی پتھ اسکیم کسی سیکیورٹی ایجنسی کی اسکیم جیسی ہے‘

بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) اکیڈمی کے سابق چیف انسٹرکٹر بی این شرما نے وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کسی سیکیورٹی ایجنسی کی اسکیم جیسی ہے۔

سابق وائس چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹننٹ جنرل راج کادیان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی اسکیموں کا تجربہ کم خطرات والی تنظیموں میں کیا جانا چاہیے۔مسلح افواج زیادہ خطرات کا سامنا کرتی ہیں اور اس کا تجربہ وہیں کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ جنگ نہیں ہوگی۔ اگر جنگ ہوئی تو ایک ایسے شخص سے جو چار سال کے بعد کے ایام کے لیے فکرمند ہے، یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی جان دے سکتا ہے۔

رویندر کمار نے کہا کہ اگنی ویر جو کہ سرحد پر تعینات ہوں گے اور مختلف حالات اور موسم میں ڈیوٹی انجام دیں گے، ان کو صرف 30 ہزار روپے دیے جائیں گے تو وہ کس جذبے کے تحت ڈیوٹی انجام دیں گے۔ ایک فوجی جوان ملک کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہا ہے اور اسے حکومت صرف 30 ہزار روپے ماہانہ دے رہی ہے۔

مستقل اور غیر مستقل فوجی جوانوں میں صلاحیتوں کا فرق

کچھ لوگوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ مستقل اور غیر مستقل فوجی جوانوں میں جہاں صلاحیت میں فرق ہوگا، وہیں ان میں باہمی ہم آہنگی کی بھی کمی ہوگی۔

رویندر کمار کے مطابق اس کی وجہ سے فوج میں امتیازی رویہ شروع ہو جائے گا۔ مستقل ملازمت والے فوجی اگنی ویروں کو عارضی قرار دے کر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے فوج کے اندر ہی ٹکراؤ ہوگا اور باہمی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے اس اسکیم کو ملک کے دفاع کے ساتھ سمجھوتہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین، میانمار، بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحدوں پر اور جموں وکشمیر میں بھی فوج تعینات ہے، جس کی وجہ سے فوجیوں کی کمی پڑ گئی ہے۔ ان کے مطابق ’ملک کو مستقل فوجی جوانوں کی ضرورت ہے بھاڑے کے جوانوں کی نہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج میں پنجاب کی سکھ رجمنٹ سب سے پرانی بٹالین ہے لیکن اب کسی بھی ریاست کا جوان کسی بھی بٹالین میں بھرتی ہو سکتا ہے۔ اس سے مختلف رجمنٹس کی اپنی اپنی خصوصیات اور فوج کی بنیادی فطرت متاثر ہو گی۔

اگنی پتھ اسکیم کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چار سال کے بعد 75 فی صد اگنی ویروں کی ملازمت ختم ہو جائے گی اور جو 25 فی صد بچیں گے ان کو مزید 15 برس کے لیے فوج میں لیا جائے گا لیکن انہیں بھرتی کے پورے عمل کو از سر نو مکمل کرنا پڑے گا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ جو 75 فی صد سبکدوش ہوں گے وہ دوسرے سیکٹرز میں کریئر بنانے کے لیے آزاد ہوں گے۔

حکومت اور کئی محکموں نے اس بارے میں یقین دہانی کرائی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں نیم مسلح دستوں میں ترجیح دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG