رسائی کے لنکس

اسکردو-کارگل روڈ کھلوانے کے لئے بھارتی کشمیر میں مظاہرے


کرگل میں سکردو کرگل روڑ کھلوانے کے حق میں مظاہرہ۔ یکم فروری 2019
کرگل میں سکردو کرگل روڑ کھلوانے کے حق میں مظاہرہ۔ یکم فروری 2019

جمعے کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے کارگل علاقے میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر پیدل مارچ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ علاقے کو پاکستان کے گلگت-بلتستان خطے کے علاقے اسکردو سے ملانے والی رابطہ سڑک کو دوبارہ آمد و رفت کے لئے کھول دیا جائے۔

پیدل مارچ میں، جو مقامی مساجد اور دوسری عبادت گاہوں میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے فورا" بعد کیا گیا، کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سماجی شخصیات نے بھی شرکت کی۔

کارگل شہر کے باہر بھی کئی علاقوں میں اسی طرح کے مظاہرے کئے گئے۔ احتجاجی مارچ کے شرکاء نے بینر اور کتبے اٹھائے ہوئے تھے جن پر یہ مطالبہ درج تھا کہ اسکردو-کارگل سڑک کے ساتھ ساتھ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے لداخ خطے کو پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت-بلتستان علاقے سے ملانے والے تمام قدرتی راستوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری طور پر کھول دیا جائے تاکہ منقسم خاندانوں کے افراد ایک دوسرے کے ہاں آسانی سے آ جا سکیں۔

یہ مظاہرے اور پیدل مارچ اُس تحریک کا ابتدائی حصہ تھے جسے منظم کرنے کا اعلان اس شعیہ اکثریتی علاقے کی ایک تنظیم انجمنِ جمعیت علمائے اثنا عشریہ کرگل نے کیا ہے۔

تنظیم کے زیر اہتمام کارگل میں نکلنے والے ایک جلوس کے ہراول دستے نے اپنے ہاتھوں میں بھارت کا قومی پرچم اُٹھا رکھا تھا۔

شرکائے جلوس سے اپنی تقریروں کے دوراں تنظیم کے صدر شیخ ناظر مہدی محمدی نے بھارتی حکومت کو یاد دلایا کہ ملک کے پارلیمان میں 1994 میں اتفاقِ رائے سے پاس کی گئی ایک قرار داد میں کہا گیا تھا کہ گلگت-بلتستان سمیت پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا سارا علاقہ بھارت کے جزو لاینفک جموں و کشمیر کا حصہ ہیں جس پر پاکستان نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، اس لئے اُن کے بقول نئی دہلی کو لداخ کے ساتھ ساتھ گلگت-بلتستان کے منقسم خاندانوں کو درپیش مشکلات کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔

کرگل کے ایک مذہبی رہنما شیخ ناظر مہدی جلوس سے خطاب کر رہے ہیں۔ یکم فروری 2019
کرگل کے ایک مذہبی رہنما شیخ ناظر مہدی جلوس سے خطاب کر رہے ہیں۔ یکم فروری 2019

انہوں نے کہا، "صرف لداخ خطے میں 12 سے 15 ہزار خاندان ایسے ہیں جو گزشتہ سات دہائیوں سے جبری جدائی کا غم سہہ رہے ہیں۔ حکومتِ بھارت کارگل اور وادئ کشمیر کے درمیان حائل پہاڑی سلسلے زوجیلا کے بیچوں بیچ ایک ٹنل اور کارگل میں ایک ہوائی اڈہ تعمیر کرنے پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن کارگل کو اسکردو سے ملانے والے قدرتی راستے کو جسے سارا سال استعمال کیا جا سکتا ہے، دوبارہ کھولنے کے لئے پاکستان سے بات کرنے میں ہچکچا رہی ہے، حالانکہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے گزر گاہ کو کھولنے پر پہلے ہی آمادگی ظاہر کی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسکردو-کارگل روڈ کو اوڑی-چکوٹھی اور چھکن دا باغ اور راولاکوٹ کراس ایل او سی سفری و تجارتی راستوں ہی کی طرح کھول دیا جائے تاکہ بالخصوص منقسم خاندان اس سے استفادہ کر سکیں۔

اسکردو-کارگل روڈ قدیمی سلک رُوٹ یا شاہراہِ ریشم کا حصہ تھی۔ بھارت اور پاکستان کشمیر پر پہلی جنگ یکم جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ کے کہنے پر جنگ بندی کے ساتھ ختم ہونے کے بعد لداخ اور بلتستان الگ الگ ہو گئے۔

گلگت-بلتستان صوبائی شاہراہ کے 126 کلو میٹر کا حصہ اسکردو کو کھرمانگ علاقے سے ملاتا ہے۔ قدیمی سڑک جو شنگو دریا کے کناروں سے گزرتی ہے، کھرمانگ کو کارگل سے ملاتی ہے، لیکن سڑک کا یہ حصہ گزشتہ 70 سال سے بند پڑا ہے۔ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سڑک کا جو حصہ موجود ہے وہ بھارت کی قومی شاہراہ 1 میں شامل ہے۔

اس دوران بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی کئی سیاسی تنظیموں اور ان کے قائدین نے کارگل کے لوگوں کی جانب سے اسکردو-کرگل روڑ اور دوسرے کراس ایل او سی راستے کھولنے کے مطالبے کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا۔ "کارگل-اسکردو سڑک کو کھولنے کے مطالبے کے حق میں کرگل میں ہزاروں لوگوں نے پیدل مارچ کیا۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس علاقے کے لوگوں کے اس جائز مطالبے کی حمایت کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی ریاست کے اپنے آئندہ دورے کے موقع پر اعتماد سازی کے اس اہم قدم کا اعلان کریں گے"۔

ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں حریت کانفرنس (عمر) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق اور علاقائی عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر رشید نے بھی اسکردو-کارگل راستہ کھولنے کے مطالبے کی تائید کی ہے۔

میر واعظ عمر نے کہا۔" منقسم جموں و کشمیر کے تمام قدرتی راستوں کو کھولا جائے تاکہ لوگ اپنے پیاروں سے مل سکیں۔ ان کے لئے سخت سردی میں ضروریاتِ زندگی کا حصول آسان بن جائے۔ وہ دونوں طرف کی عبادت گاہوںم میں آ جا سکیں اور تجارت کر سکیں۔ کارگل اور اسکردو کے لوگوں کو صرف 120 کلو میٹر راستے نے، جو سالہا سال سے بند پڑا ہے ایک دوسرے سے جُدا کر رکھا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے"۔

وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔

ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اینڈرایڈ فون کے لیے: https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en

آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے: https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG