رسائی کے لنکس

راجہ فاروق حیدر کے متنازع بیان پر بھارتی کشمیر میں خاموشی


فائل
فائل

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے اس بیان پر کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر کے مبینہ متنازع بیان سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام لوگ لاتعلق نظر آرہے ہیں اور سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے راجہ فاروق حیدر نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد اُن کی معزولی کے پس منظر میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے آپشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

راجہ فاروق کے اس بیان پر پاکستان کی سیاست میں گزشتہ دو روز سے خوب گرما گرمی جاری ہے البتہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے اس بیان پر کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

بھارتی کشمیر کے سیاسی حلقوں کے اس معاملے سے لاتعلقی کے باوجود سوشل میڈیا پر اس پر خوب بحث ہورہی ہے جس میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی پیش پیش ہیں۔

ایک کشمیری نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں سوال کیا ہے کہ کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان کے کسی منتخب وزیرِ اعظم کو مقررہ مدت پورا کرنے سے پہلے ہی اپنے عہدے سے ہٹادیا گیا ہو؟ پھر راجہ فاروق حیدر نے کیوں اور کس مقصد کے تحت ایک ایسا بیان دیا ہے جو انتشار پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے؟

سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ایک اور کشمیری نے لکھا ہے کہ راجہ فاروق کے بیان کے محرکات جو بھی رہے ہوں، کسی فرِدِ واحد کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کشمیری عوام کی جانب سے یا اُن کے نام پر کوئی فیصلہ سنادے۔ اکثریتی رائے سے جو فیصلہ ہوگا وہی قابلِ قبول ہے۔

پاکستانی کشمیر میں رہنے والے ایک کشمیری نے سوشل میڈیا پر ان لفظوں میں شکایت کی: "اِدھر (پاکستان) کے اِس شہ رگ اور اُدھر (بھارت) کے اٹوٹ انگ کے جھوٹ پر مبنی فلسفہ نے اس قوم کو برباد کیا ہوا ہے۔"

دوسری جانب بھارتی ذرائع ابلاغ میں راجہ فاروق کے بیان کو خوب اُچھالا جارہا ہے اور اس پر نجی ٹیلی وژن چینلز پر بحث و مباحثے جاری ہیں۔

ان پروگراموں کے بعض شرکا نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ راجہ فاروق حیدر اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دوسرے ہم خیال لوگوں سے رابطہ قائم کرے اور یہ دیکھے کہ وہاں لوگوں اور سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں میں پائے جانے والے "عدم اطمینان" کو کیسے راستے پر لگاکر بھارت کے حق میں بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

راجہ فاروق کے مبینہ بیان پر خود پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں حزبِ مخالف کی جماعتوں کی طرف سے بھی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

حزبِ اختلاف کی ایک بڑی جماعت تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اتوار کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران راجہ فاروق کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کیا تھا حالانکہ پاکستانی کشمیر کے وزیرِاعظم بارہا واضح کرچکے ہیں کہ اُن کے بیان کو ذرائع ابلاغ نے "سیاق و سباق سے ہٹ کر" پیش کیا۔

راجہ فاروق حیدر خان نے مبینہ متنازع بیان 29جولائی کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دیا تھا۔

پریس کانفرنس میں موجود وادئ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی اطہر مسعود وانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم نے صرف اتنا کہا تھا کہ پاکستان میں "اس طرح کے افسوسناک ا ور ملک کے وسیع تر مفادات کے لیے ناقابل تلافی نقصانات پر مبنی اقدامات کو دیکھتے ہوئے ایک عام کشمیری بھی یہ سوچتا ہے کہ یہی ہے وہ پاکستان جس کے لیے ہم درندہ صفت بھارتی فوج سے نہتے مقابلہ کرتے ہوئے عزت،جان و مال اورہر طرح کی بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں اور نسل در نسل دیتے آرہے ہیں؟"

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میرواعظ عمر فاروق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا کشمیر پر یہ اصولی موقف رہا ہے کہ کشمیری عوام کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق اور تقاضوں کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے۔

میر واعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ بھی تجویز دیتا رہا ہے کہ کشمیریوں کے اصل اور حقیقی نمائندے پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلے کا پُر امن اور دائمی حل تلاش کریں۔

ان کے بقول یہ پاکستان کی قومی پالیسی ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ حکومتوں کی تبدیلی سے اس پر کوئی اثر پڑے گا۔

میر واعظ کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جن پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو بین الاقوامی سطح پر تسیلم کیا جاچکا ہے اور خود بھارت اور پاکستان، دونوں نے کشمیریوں سے عالمی سطح پر یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

میرواعظ نے کہا کہ نئی دہلی میں پاکستان کے سبکدوش ہونے والے ہائی کمشنر عبد الباسط نے گزشتہ روز یہ بیان دیا تھا کہ اٗن کا ملک کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ شرائط اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے تیار ہے اور اب بات آگے بڑھانے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔

کشمیر کی قوم پرست جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک ترجمان نے حالیہ تنازع پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ان کی تحریک منقسم کشمیر کی ری یونیفیکیشن (اتحادِنو) اور پھر اسے ایک آزاد اور خود مختار ملک بنانے کے موقف پر قائم ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG