رسائی کے لنکس

الظواہری کی ہلاکت، بھارت میں القاعدہ کے مبینہ حامیوں کے خلاف کارروائی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی امریکہ کے ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد نئی دہلی کے سیکیورٹی حلقوں میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا ان کی ہلاکت سے بھارت میں القاعدہ کی سرگرمیوں پر کوئی اثر پڑے گا؟

ایمن الظواہری نے اگرچہ القاعدہ کو امریکہ کو ہدف بنانے کے لیے سرگرم کر رکھا تھا، البتہ ان کی دلچسپی حالیہ دنوں میں برصغیر بالخصوص بھارت میں بڑھ گئی تھی۔انہوں نے کئی بیانات میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلمانوں کی مبینہ ہلاکتوں کی مذمت کی تھی۔ 2019 میں ایک ویڈیو میں انہوں نے کشمیر میں ’مجاہدین‘ سے اپیل کی تھی کہ وہ بھارت کی سیکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے کریں۔

رواں برس کے شروع میں کرناٹک میں حجاب تنازعے کے سلسلے میں انہوں نے ایک ویڈیو جاری کرکے طالبہ مسکان خان کی تعریف کی تھی۔ مسکان خان نے کالج کے احاطے میں ہندو تنظیموں سے وابستہ طلبہ کے ’جے شری رام‘ کے نعرے کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔

الظواہری نے پاکستان اور بھارت کے لیے ایک تنظیم کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے بھارت کے مسلمان بھائیوں کو فراموش نہیں کیا۔ انہوں نے مولانا عاصم عمر نامی شخص کو ’القاعدہ اِن انڈین سب کانٹی نینٹ‘ (اے کیو آئی ایس) کا سربراہ مقرر کیا تھا، جو کہ 2019 میں افغانستان میں ایک ڈرون حملے میں نشانہ بنے تھے۔ اس کے باوجود بھارت میں القاعدہ کی سرگرمیاں جاری رہیں۔

رپورٹس کے مطابق اے کیو آئی ایس نے بی جے پی کے دو رہنماؤں کے متنازع بیانات کے تناظر میں آٹھ جون کو ایک بیان جاری کرکے دہلی، ممبئی، اتر پردیش اور گجرات میں حملوں کی دھمکی دی تھی۔

بھارت کے خفیہ اداروں نے 2015 میں ایک نوٹ تیار کیا تھا، جس کے مطابق اے کیو آئی ایس کشمیر، مہاراشٹرا، گجرات، اتر پردیش، راجستھان، بہار، کیرالہ، کرناٹک اور دہلی سے مسلمانوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سیکیورٹی اداروں کے مطابق آسام میں کچھ مسلمان القاعدہ میں شامل ہوئے ہیں یا اس کے نظریے سے متاثر ہیں۔

آسام پولیس کے سربراہ بھاسکر جیوتی مہنتا نے بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ القاعدہ کی مقامی تنظیم نے شمال مشرقی بھارت میں اپنی دلچسپی دکھائی ہے۔ الظواہری نے دہشت گردوں کو آسام میں داخل ہونے کی ہدایت کی تھی۔

ان کے مطابق اے کیو آئی ایس کا ایک سہ ماہی میگزین بنگلہ زبان میں شائع ہوتا ہے جو کہ تشویش کی بات ہے۔

دہلی کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 2015 تک صرف 18 بھارتی شہری القاعدہ میں شامل ہوئے تھے جن میں سے پانچ جیل میں ہیں جب کہ باقی فرار ہیں۔

آسام کے اسپیشل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس جی پی سنگھ نے روزنامہ ’دی ہندو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ فروری سے لے کر اب تک القاعدہ سے تعلق رکھنے والے یا اس سے نظریاتی طور پر متاثر ہونے والے 22 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

آسام کی پولیس نے دو روز قبل برپیٹا ضلعے سے دو افراد کو القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں گرفتار کیا ہے۔

الظواہری کی ہلاکت کا بھارت میں القاعدہ کی سرگرمیوں پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سلسلے میں تجزیہ کار بہت محتاط ردِ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی جانب سے کئی دفاعی اور سیکیورٹی مبصرین سے ان کا ردِ عمل جاننے کی کوشش کی البتہ بیشتر نے اس حوالے سے بات کرنے سے انکار کیا۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد کا کہنا تھا کہ الظواہری کی ہلاکت کے بعد بھارت میں القاعدہ کی سرگرمیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ الظواہری کی ہلاکت سے یقینی طور پر القاعدہ کی سرگرمیوں کو دھچکہ لگا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کی سیکیورٹی ادارے مستعد نہ رہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں القاعدہ کے جو انڈر گراؤنڈ مقامی رہنما ہیں وہ ابھی پکڑے نہیں گئے۔ وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الظواہری کی موت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب القاعدہ ختم ہو گئی ہے یا ختم ہو جائے گی۔ جس طرح اسامہ بن لادن کی موت کے بعد القاعدہ کو الظواہری کی شکل میں دوسرا رہنما مل گیا تھا، اسی طرح الظواہری کی جگہ پر بھی کوئی نہ کوئی آجائے گا۔

شنکر پرساد نے سیکیورٹی اداروں کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ حالیہ دنوں میں بھارت کے معاملات میں الظواہری کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔

ان کے مطابق وہ یہاں اپنا نیٹ ورک پھیلانا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ مسلم ایشوز پر بیان دینے لگے تھے۔ چاہے کشمیر کا معاملہ ہو یا آسام میں دہشت گردی کے شبہے میں مسلمانوں کی گرفتاریوں کا یا پھر کرناٹک میں حجاب کا معاملہ ہو۔

جون میں شائع ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد القاعدہ کو کافی آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ اے کیو آئی ایس سے وابستہ بنگلہ دیش، بھارت، میانمار اور پاکستان کے عسکریت پسند غزنی، ہلمند، قندھار، نیم روز، پکتیکا اور زابل صوبوں میں موجود ہیں۔

نئی دہلی کے بعض مبصرین کے مطابق بھارت انسانی بنیادوں پر اگرچہ افعانستان کی مدد کر رہا ہے البتہ وہ نئی حکومت کے ساتھ سفارتی رابطوں کے قیام میں بہت محتاط ہے۔ افغانستان کی سرزمین سے بھارت میں کی جانے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں پر نئی دہلی کی نظر ہے۔


شنکر پرساد کہتے ہیں کہ افغانستان میں بھارت کے مفادات ہیں۔ اس کو اس پر نظر رکھنا پڑے گی کہ الظواہری کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں القاعدہ کیا شکل اختیار کرتی ہے اور یہ کہ بھارت کے مفادات متاثر نہ ہوں۔

ان کے خیال میں بھارت افغانستان کی طالبان حکومت سے سفارتی روابط کے قیام میں پہلے کی طرح ہی محتاط رہے گا کیوں کہ اس کا امکان کم ہے کہ الظواہری کی ہلاکت کا افغانستان میں موجود جہادیوں کی سرگرمیوں پر کوئی اثر پڑے گا۔

دریں اثنا آسام کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے دعویٰ کیا ہے کہ آسام جہادی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ میں بنگلہ دیش سے سرگرم جہادی تنظیم ’انصار الاسلام‘ سے وابستہ پانچ ماڈیول پائے گئے ہیں۔

انہوں نے جمعرات کو گوہاٹی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ انصار الاسلام سے وابستہ چھ بنگلہ دیشی آسام میں داخل ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے متعدد بیانات میں یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی القاعدہ یا داعش میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس سے قبل کہا تھا کہ بھارت میں جو ثقافتی اور خاندانی اقدار ہیں ان کی وجہ سے دہشت گرد گروہ یہاں اپنی بالادستی قائم نہیں کر پائیں گے۔

ان کے بقول دہشت گرد گروہوں میں بھارتی مسلمانوں کے لیے کوئی کشش نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG