رسائی کے لنکس

کسانوں کا 'دلی مارچ'؛ مذاکرات کی ناکامی کے بعد جھڑپیں، آنسو گیس کی شیلنگ


بھارتی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کسانوں نے 'دلی مارچ' کا آغاز کر دیا ہے اور اس دوران پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

کسانوں کی جانب سے جب منگل کی صبح ہریانہ اور پنجاب کے درمیان شمبھو بارڈر پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ان پر شیلنگ کی گئی۔ ہریانہ پولیس نے متعدد کسانوں کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔

یہ احتجاج کسانوں کے محاذ ’بھارتیہ کسان یونین‘ اور ’سمیوکت کسان مورچہ‘ کی قیادت میں ہو رہا ہے اور اس میں کم از کم 200 کسان تنظیمیں شامل ہیں۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تمام فصلوں پر حکومت کی جانب سے دی جانے والی کم سے کم قیمت یا منیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی دی جائے۔ کسانوں کے تمام قرضے معاف کیے جائیں اور پینشن دی جائے۔

کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ فصلوں کی ایم ایس پی کے لیے سوامی ناتھن کمیشن کا فارمولہ نافذ کیا جائے اور 2020 کے احتجاج کے دوران کسانوں کے خلاف درج کیے جانے والے تمام مقدمات واپس لیے جائیں۔

جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ

جب ہریانہ پولیس نے کسانوں کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ایک پل کو توڑ دیا۔ انھوں نے ٹریکٹروں کی مدد سے رکاوٹ کے لیے کھڑے کیے گئے سیمنٹ کے سلیب کو بھی توڑنے کی کوشش کی۔

پولیس کی جانب سے رکاوٹوں سے دور رہنے کی اپیل کے باوجود جب مارچ پر بضد کسانوں نے رکاوٹیں توڑ کر قریبی گھگھر ندی میں پھینکنا شروع کیا تو ان پر ڈرونز سے بھی آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ ان کو روکنے کے لیے واٹر کینن بھی چھوڑی گئی۔

ٹکری اور غازی پور بارڈر پر بھی کسان جمع ہیں مگر انھیں بھی دہلی آنے کی اجازت نہیں ہے۔

دریں اثنا شمبھو بارڈر پر بڑی تعداد میں ٹریکٹروں کے ساتھ کسان موجود ہیں۔ پولیس ان کو دلی جانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق سینکڑوں ٹریکٹروں پر نوجوان، بزرگ اور خواتین بھی سوار ہیں۔ وہ حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔

ٹریفک بلاک، مواصلاتی نظام میں خلل

اس احتجاجی مارچ کی وجہ سے ہریانہ کے گوڑ گاؤں اور دہلی کے مضافاتی علاقوں میں ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ گوڑ گاؤں میں منگل کی صبح کو موبائل انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئیں جس کی وجہ سے آن لائن خرید و فروخت پر بھی اثر پڑا ہے۔

کسانوں کے مارچ کے کو روکنے کے لیے حکومت و انتظامیہ کی جانب سے زبردست انتظامات کیے گئے ہیں۔

دہلی سے لگی ہوئی ہریانہ اور اترپردیش کی سرحدوں پر زبردست رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے کھود دیے گئے ہیں۔ خاردار تاروں کی باڑ کے علاوہ سڑکوں پر بڑی بڑی کیلیں نصب کر دی گئی ہیں۔ سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاک بھی لگا دیے گئے ہیں۔

لال قلعہ عوام کے لیے بند

کسانوں کے دہلی کوچ کے پیشِ نظر دہلی پولیس نے احتیاطی قدم اٹھاتے ہوئے لال قلعے میں عوام کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ لال قلعے کے باہر بیریکیڈنگ کرکے نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل احتجاج کے دوران کسانوں نے 2021 کے یوم جمہوریہ پر دہلی میں ٹریکٹروں کی پریڈ کا اعلان کیا تھا اور بڑی تعداد میں ٹریکٹر دہلی میں داخل ہو گئے تھے۔

اس موقع پر لال قلعہ میں بھی کچھ لوگ اپنے ٹریکٹر لے کر پہنچ گئے تھے اور انھوں نے وہاں سکھ مذہب کا پرچم پھہرا دیا تھا۔

دہلی میں کئی میٹرو اسٹیشنوں پر داخلے و اخراج کے دروازے بند کر دیے گئے۔ جب کہ اسٹیشنوں پر زبردست جانچ بھی کی جا رہی ہے۔

دہلی سے متصل نوئڈا میں بھی ہائی الرٹ کر دیا گیا اور مختلف مقامات پر اضافی پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے۔ صورتِ حال کی نگرانی کے لیے جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے ہیں۔ ٹریفک ایڈوائزری بھی جاری کی گئی ہے۔

ہریانہ میں بھی حفاظتی انتظامات

ریاست ہریانہ میں بھی حکم امتناع نافذ کر دیا گیا اور پانچ سے زائد افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ وہاں بھی مختلف مقامات پر سڑکوں پر بڑی بڑی رکاوٹیں لگا دی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس رات میں مواضعات میں گشت کرتی ہے اور لوگوں سے احتجاج میں شریک نہ ہونے کی اپیل کرتی ہے۔

اس سے قبل 2020 میں ہونے والا احتجاج زراعت کے شعبے میں اصلاحات کی غرض سے حکومت کی جانب سے منظور کیے جانے والے تین متنازع قوانین کے خلاف تھا۔ حکومت نے 2021 میں وہ قوانین واپس لے لیے تھے جس کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا تھا۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس وقت ان سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔ لہٰذا وہ ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں۔

حکومت نے سابقہ احتجاج کے دوران کسانوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا مطالبہ منظور کر لیا تھا لیکن ایم ایس پی کے لیے کوئی قانونی گارنٹی نہیں دی تھی۔

اس بار حکومت نے پہلے ہی بات چیت شروع کر دی۔ پہلی بات چیت آٹھ فروری کو اور دوسری 12 فروری کو ہوئی۔ مگر بات چیت کے دونوں ادوار ناکام رہے۔ تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ بیشتر معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

کسان رہنما سورن سنگھ پنڈھیر نے بات چیت کی ناکامی کے بعد دلی چلو مارچ کا اعلان کیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ حکومت ہمارے مطالبات کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔

سیاسی جماعتوں کا ردِعمل

بات چیت میں شرکت کرنے والے مرکزی وزیر زراعت ارجن منڈا نے مسئلے کے حل کی امید ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق کئی معاملات پر اتفاقِ رائے ہوا ہے اور باقی معاملات کے سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کرکے تجویز پیش کی جائے گی۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے مارچ کرنے والے کسانوں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے حکومت پر تنقید کی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس کارروائی کو ’بے رحم حملہ‘ قرار دیا اور کہا کہ کسانوں کے معاملے میں حکومت کی ناکامی اس کے ’ترقی یافتہ‘ بھارت کے دعوے کو بے نقاب کرتی ہے۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری اور کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے ایکس پر حکومت کی جانب سے ایم ایس سوامی ناتھن اور چودھری چرن سنگھ کو بھارت کا اعلیٰ سول اعزاز ’بھارت رتن‘ دینے اور کسانوں کے مطالبات پر توجہ نہ دینے کو حکومت کا تضاد قرار دیا۔

سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ کسانوں پر آنسو گیس کے گولے داغے جا رہے ہیں۔ یہ کیسا ’امرت کال‘ ہے۔

انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کسانوں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں کسانوں کی آمدنی اور فصلوں کی قمیت دو گنا کرنے اور ایم ایس پی کے نفاذ کا وعدہ کیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG