رسائی کے لنکس

عالمی انسانی حقوق کمیشن کی بھارت کے متنازع شہریت بل پر تشویش


متنازع بل کے خلاف آسام سمیت شمال مشرقی علاقوں میں پر تشدد احتجاج جاری ہے — فائل فوٹو
متنازع بل کے خلاف آسام سمیت شمال مشرقی علاقوں میں پر تشدد احتجاج جاری ہے — فائل فوٹو

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے آج جمعے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں بھارت کے شہریت کے ترمیمی آرڈیننس ایکٹ برائے 2019 پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے امتیازی قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ بھارت کے ترمیمی قانون سے، شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق انٹرنیشنل کنونشن اور نسلی امتياز کے خاتمے کے کنونشن کی اہمیت کی نفی ہوتی ہے جس کا ایک ریاست کے طور پر بھارت رکن ہے۔

یہ بین الاقوامی قوانین نسلی، اور مذہبی بنیادوں پر امتياز برتنے سے روکتے ہیں۔

انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ اس نئے قانون کا جائزہ لے گی اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس قانون کا باریک بینی کے ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق بھارتی ذمہ داریوں کا تقابل کرے گی۔

جاپان کے وزیراعظم نے بھارت کا دورہ منسوخ کر دیا

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے نے بھارت میں پر تشدد احتجاج کے باعث دورۂ بھارت منسوخ کر دیا ہے۔

جاپان آسام میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کر رہا ہے۔ شنزو ایبے نے منی پور میں اس مقام کا بھی دورہ کرنا تھا جہاں جاپانی فوجی مدفون ہیں۔

یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی فوجی آسام میں مارے گئے تھے۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے مطابق، دونوں ممالک کی مشترکہ فیصلے کے تحت یہ دورہ منسوخ ہوا ہے۔

شنزو ابے نے اس دورے میں وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی آسام کے شہر گوہاٹی میں ملاقات کرنی تھی۔ جہاں احتجاج کے باعث امن عامہ کی صورت حال خراب ہے۔

خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے جمعرات سے شروع ہونے والا اپنا دورۂ بھارت منسوخ کر دیا ہے۔

عبدالمومن نے بھارت میں متنازع شہریت کے ترمیمی بل کی منظوری سے قبل بھارتی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے خطاب کا ذکر کیا جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف تفریق برتی جاتی ہے۔

عالمی ردعمل کے ساتھ ساتھ بھارت کے مختلف حصوں میں متنازع شہریت بل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں جانی اور مالی نقصان بھی ہوا ہے۔

متنازع شہریت بل کے خلاف بھارت میں مظاہرے

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، جمعرات کو متنازع بل کے خلاف ریاست آسام کے مختلف شہروں میں لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔ اس دوران مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر حملے بھی کیے۔

مشتعل افراد نے ایک ریلوے اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور کئی زخمی بھی ہوئے۔

مظاہرین کا مؤقف ہے کہ شہریت ترمیمی قانون سے ریاست آسام میں مقیم غیر قانونی مہاجرین کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔

بھارت کے صدر نے شہریت بل پر دستخط کر دیے

بھارت کے راشٹراپتی بھون (ایوان صدر) سے جمعے کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق، صدر رام ناتھ کووند نے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں سے منظور ہونے والے 'سٹیزن شپ' ترمیم بل پر دستخط کر دیے ہیں۔

بھارت کے نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' کے مطابق، نئے قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بدھ مت، جین ازم، پارسی اور مسیحی مذاہب کے ان افراد کو شہریت دی جائے گی جو 2014 سے قبل بھارت آئے ہوں یا وہ چھ برس تک بھارت میں مقیم رہے ہوں۔

بھارت کے نئے قانون کے تحت تین مسلم اکثریتی ممالک سے نقل مکانی کرنے والے غیر مسلم افراد کو ترجیحی دی گئی ہے۔

بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں آباد شہریوں میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آنے والے ہندو افراد کو نئے قانون کے تحت شہری مل جائے گی۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یہ بل 2016 میں بھی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں پیش کیا تھا۔ تاہم، اس وقت بل راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں منظور نہیں ہو سکا تھا۔

بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جب کہ شمالی مشرقی علاقوں میں بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں مسلمان ریاست آسام میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون میں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونے پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کی شہریت خطرے میں

بھارت کے مقامی نشریاتی ادارے 'ویان' کے مطابق، بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کو اس خطے میں رہتے ہوئے دہائیاں ہو گئی ہیں۔ تاہم، ان کو شہریت نہیں دی گئی بلکہ نیشنل رجسٹریشن (این آر سی) کے تحت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جا رہا ہے۔

رواں سال اگست میں بھی یہ تنازع سامنے آیا تھا کہ جب این آر سی کا اجرا ہوا تو اس میں 20 لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، یعنی یہ افراد بھارت کے شہری تسلیم نہیں کیے گئے تھے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان میں کچھ ہندو بھی شامل تھے۔

بھارت کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش سے آئے تھے، اُنہیں بھارت میں رہنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں پیر کو ​وزیرِ داخلہ امت شاہ نے متنازع شہریت ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا تھا جس پر تقریباً 12 گھنٹے تک بحث ہوئی۔ بل پیش کیے جانے کے دوران پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف اور حکومتی اراکین کے درمیان سخت جملوں کا بھی تبادلہ ہوا تھا۔

وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کانگریس نے 1947 میں مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم نہ کرائی ہوتی تو اس بل کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

بھارت کی لوک سبھا میں بل کے حق میں 311 اور مخالفت میں 80 ارکان ووٹ دیا جب کہ ایوان بالا میں یہ بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے منظور ہوا تھا۔

جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے
جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی مذکورہ بل کی منظوری کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انسانی حقوق سمیت پاکستان اور بھارت کے باہمی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ نریندر مودی حکومت کا یہ اقدام 'ہندوتوا' کے پرچار کا عملی نمونہ ہے۔

XS
SM
MD
LG