رسائی کے لنکس

بلقیس بانو کیس سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ؛ 'اب انصاف کی اُمید پیدا ہو گئی ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کو ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو گجرات حکومت کی جانب سے معافی دے کر قبل از وقت رہا کرنے کا فیصلہ منسوخ کر دیا ہے۔

عدالت نے مجرموں کو دو ہفتے کے اندر جیل واپس بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔

جسٹس بی وی ناگ رتنا اور جسٹس اُجّل بھویان نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ گجرات حکومت ان مجرموں کو معاف کرنے کی مجاز نہیں تھی جس ریاست میں عدالتی کارروائی کے بعد فیصلہ سنایا جاتا ہے وہی ریاست معاف کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ اس معاملے میں مہاراشٹرا کی حکومت مجاز ہے نہ کہ گجرات کی حکومت۔

خیال رہے کہ 28 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس سے ایودھیا سے لوٹ رہے ہندوؤں کے ایک ڈبے میں گودھرا ریلوے اسٹیشن پر مبینہ آتش زدگی ہوئی تھی جس میں 50 سے زائد افراد جل کر ہلاک ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد گجرات میں جگہ جگہ فسادات برپا ہو گئے تھے۔ اسی دوران تین مارچ 2002 کو بلقیس بانو اور ان کے اہلِ خانہ پر داہود ضلع کے رندھیک پور گاؤں میں حملہ کیا گیا تھا جس میں ان کے گھر کے 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹس کے مطابق اس دوران بلقیس بانو سے اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ اس وقت ان کی عمر 19 برس تھی اور وہ پانچ ماہ کے حمل سے تھیں۔

اس حملے میں ان کی تین سال کی بیٹی بھی ماری گئی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے اس اندیشے کے بعد کہ گجرات میں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی حکومت ہے، اس لیے وہاں انصاف نہیں ہو سکتا۔ یہ معاملہ گجرات سے مہاراشٹرا کی عدالت میں منتقل کیا گیا تھا جس نے 11 ملزموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپریل 2019 میں گجرات حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے بطور معاوضہ دے۔ اس کے علاوہ ان کو سرکاری ملازمت اور رہنے کے لیے گھر دیا جائے۔

سپریم کورٹ کے بینچ نے مزید کہا کہ ریاست نے مجرموں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ یہی خدشہ تھا جس کی وجہ سے اس عدالت نے مقدمے کی سماعت ریاست سے باہر مہاراشٹرا میں منتقل کی تھی۔ گجرات حکومت نے مہاراشٹرا حکومت کے اختیارات غصب کرکے مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر مجرم اپنی سزا کے حکم کو روک سکتے ہیں تو پھر معاشرے میں امن و سکون کا کیا ہوگا۔

عدالت کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ ان مجرموں کی آزادی سلب کرنا جائز ہے۔ سزا پانے اور قید ہونے کے بعد وہ آزادی کا حق کھو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر وہ معافی مانگنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ انہیں جیل میں ہونا چاہیے۔

عدالت نے جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس وکرم ناتھ کے 13 مئی 2022 کے فیصلے کو، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کو معاف کرنے پر غور کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیصلہ عدالت کے ساتھ دھوکہ کرکے اور حقائق کو مسخ کرکے حاصل کیا گیا تھا۔ لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ گجرات حکومت کو اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کرنی چاہیے تھی اور کہنا چاہیے تھا کہ وہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

یاد رہے کہ گجرات حکومت نے 15 اگست 2022 کو تمام 11 مجرموں کو رہا کر دیا تھا۔

مسلمان خواتین کی آن لائن ’نیلامی‘: معاملہ پھر کیوں اٹھایا گیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:57 0:00

اس کا کہنا تھا کہ مجرموں کو ایک کمیٹی کی سفارش پر 1992 کے قانون کے تحت رہا کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ جس کمیٹی نے ان کی رہائی کی سفارش کی تھی اس کے بیشتر ارکان حکمراں جماعت بی جے پی کے کارکن تھے۔

گجرات حکومت کے اس فیصلے پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

جب کہ بلقیس بانو اور ان کے اہلِ خانہ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

رہائی کے فیصلے کے خلاف عدالت میں کئی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

درخواست گزاروں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کی سبھاشنی علی، ایک آزاد صحافی ریوتی لال، لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی مہوا موئترا قابل ذکر ہیں۔

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق اس فیصلے سے بلقیس بانو کے اہل خانہ نے راحت کی سانس لی ہے لیکن ان کے بقول یہ ان کی جیت نہیں ہے۔ تاہم چونکہ وہ فیصلے کی نقل کا انتظار کر رہے ہیں اس لیے انھوں نے زیادہ تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

فیصلے پر ردِعمل

انسانی حقوق کے کارکنوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

سابق آئی اے ایس اور گجرات متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں پیش پیش رہنے والے ہرش مندر کا کہنا ہے کہ ایسے میں جب کہ عدالتوں سے اقلیتوں سے متعلق اطمینان بخش فیصلے نہیں ہو رہے ہیں، ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جس طرح اجتماعی زیادتی اور قتل کے مجرموں کو رہا کیا گیا اور پھر ان کا ہار پہنا کر استقبال کیا گیا وہ بہت افسوسناک تھا۔

انھوں نے کہا کہ عدالت نے مجرموں کو دو ہفتے کے اندر جیل میں واپس جانے کی ہدایت دی ہے۔ اگر حکومت میں قوت ارادی ہو تو انہیں جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ لیکن چونکہ گجرات میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور مہاراشٹرا میں بھی اس لیے اس کی امید کم ہی ہے۔

ان کے خیال میں پولیس کہہ دے گی کہ مجرم نہیں مل رہے ہیں، وہ روپوش ہو گئے ہیں یا دوسرے ملک چلے گئے ہیں۔ اس طرح وہ ان کو بچا سکتی ہے۔

ممبئی عدالت کے جج، جسٹس (ریٹائرڈ) یو ڈی سالوے نے جنھوں نے 2008 میں ملزموں کو سزا سنائی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کو جرأت مندانہ قرار دیا ہے۔

انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ معافی کا فیصلہ مہاراشٹرا کی حکومت کر سکتی تھی گجرات کی نہیں۔ ان کے بقول مجرموں کی رہائی غلط اور احمقانہ تھی۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے بلقیس بانو کی انتھک لڑائی کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ جمہوری نظام میں سیاسی فائدے کے لیے انصاف کا قتل بہت خطرناک ہے۔

کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے کہا کہ بالآخر اس معاملے میں انصاف ہوا۔ اس فیصلے نے بی جے پی کی خواتین مخالف پالیسی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انھوں نے اس لڑائی کو یہاں تک پہنچانے میں بلقیس بانو کو مبارکباد دی۔

کانگریس کے میڈیا ہیڈ پون کھیڑا نے کہا کہ اس فیصلے نے بی جے پی کی جانب سے خواتین کی بے حرمتی کو بے نقاب کر دیا۔ یہ فیصلہ ان لوگوں کے چہرے پر ایک تھپڑ ہے جنھوں نے مجرموں کو رہا کیا اور جنھوں نے ان کا خیرمقدم کیا تھا۔

انھوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ یہ تاریخی فیصلہ ہے اور اب مجرموں کو پھر جیل جانا ہو گا۔

'فیصلے سے انصاف کی اُمید پیدا ہو گئی ہے'

گجرات کانگریس کے صدر منیش دوشی نے کہا کہ گجرات حکومت مجرموں کو سزا دینے کے بجائے بچاتی رہی ہے۔ حکومت ایسے گھناؤنے جرم کے متاثرین کے ساتھ انصاف میں ناکام رہی ہے۔

رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ فیصلہ خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے لیے ایک مثال بنے گا۔

سینئر کمیوسٹ رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ برندا کارت نے کہا کہ اس فیصلے سے انصاف کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے بقول فیصلہ مرکز اور گجرات دونوں حکومتوں کی اہلیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ گجرات حکومت نے جن دستاویزات کو تسلیم کیا تھا ان کو عدالت نے فراڈ قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ گجرات کی بی جے پی حکومت کا کہنا تھا کہ اس نے اس معاملے پر غور کرنے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر معافی کا اعلان کیا تھا۔ کمیٹی نے ان لوگوں کو ’مہذب برہمن‘ قرار دیا تھا۔

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ مجرموں نے 14 سال سے زیادہ کی مدت جیل میں کاٹ لی تھی اس لیے وہ 1992 کے قانون کے مطابق رہائی کے حق دار تھے۔

قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ 1992 کا قانون اجتماعی زیادتی اور اجتماعی قتل جیسے گھناونے جرائم میں سزا پانے والوں پر لاگو نہیں ہوتا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG