رسائی کے لنکس

بھارت: سپریم کورٹ کا ہم جنس شادی کو قانونی درجہ دینے سے انکار


بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس افراد کی آپس میں شادی کو قانونی درجہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہم جنس افراد کے حقوق کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے کابینہ سیکریٹری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دے۔

عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔ ہم جنس پرستی ایک قدرتی رجحان ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ سال 2018 میں ہم جنس تعلق کو قانونی طور پر جائز قرار دے چکی ہے۔ 2018 میں بھارتی سپریم کورٹ کےاس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا تھا کہ دو بالغ افراد کے درمیان، چاہے وہ ہم جنس پرست ہی ہوں، باہمی رضامندی سے قائم کیے جانے والا جنسی تعلق غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے 2018 میں ہم جنس پرستی کے خلاف ڈیڑھ سو سال پرانے ایک قانون کو کالعدم قرار دیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں ہم جنس شادی کو قانونی درجہ دینے کے لیے 21 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اپریل اور مئی میں 10 روز کی سماعت کے بعد 11 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول، ایس رویندر بھٹ، ہیما کوہلی اور پی ایس نرسمہا شامل ہیں۔

ہم جنس پرستوں یا ایل جی بی ٹی کیو برادری کی جانب سے مساوی حقوق کے سلسلے میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران مکل روہتگی، ابھیشیک منو سنگھوی، راجو رام چندرن، آنند گروور، گیتا لوتھرا، کے وی وشوناتھن، سوربھ کرپال اور مینا کاگرو سوامی جیسے سینئر وکلا نےدلائل دیے۔

منگل کو چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت قانون نہیں بنا سکتی وہ صرف قانون کی تشریح کر سکتی ہے۔اسپیشل میرج ایکٹ (ایس ایم اے) میں ترمیم کا فیصلہ پارلیمان کو کرنا ہے۔ عدالت کو قانون سازی کے دائرے میں مداخلت کے سلسلے میں محتاط رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسپیشل میرج ایکٹ کو ختم کر دیا جاتا ہے تو یہ قدم ملک کو آزادی سے پہلے کے دور میں لے جائے گا۔ ہم پارلیمان یا ریاستی اسمبلیوں کو قانون بنانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے۔

واضح رہے کہ اسپیشل میرج ایکٹ 1954 میں مرد اور عورت کے درمیان شادی کی بات کہی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جنس شادیوں کے بارے میں کسی حد تک اتفاق اور اختلاف دونوں ہیں کہ ہمیں اس بارے میں کہاں تک جانا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی ٹرانس جینڈر شخص کسی دوسرے جینڈر شخص سے شادی کرنا چاہتا ہے تو ایسی شادی کو تسلیم کیا جائے گا کیوں کہ اس شادی میں ایک مرد ہوگا اور دوسری عورت ہوگی۔

ان کے بقول ایک ٹرانس جینڈر مرد کو عورت سے اور ایک ٹرانس جینڈر عورت کو مرد سے شادی کرنے کا حق ہے۔ اگر اس کی اجازت نہیں دی گئی تو یہ ٹرانس جینڈر قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔

ان کے بقول اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنا کسی کی زندگی کے انتخاب کا لازمی حصہ ہے۔ لہٰذا یہ زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ہے۔ یہ حق آئین کی دفعہ 21 میں دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم جنس افراد صرف شہری اور انگریزی بولنے والے خوشحال لوگ نہیں ہے۔ گاؤں میں کھیت میں کام کرنے والی ایک عورت بھی ہم جنس پرست ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی حکومت ہم جنس شادیوں کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ قانون بنانا پارلیمان کا کام ہے۔ شادی مرد اور عورت کے درمیان کا معاملہ ہے اور جو لوگ ہم جنس شادی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ شہری اشراف ہیں۔

مسلم اور ہندو مذہبی جماعتوں نے بھی ہم جنس شادی کو قانونی درجہ دینے کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کی اجازت دی گئی تو معاشرے میں انتشار پیدا ہوگا۔

حکومت نے تین مئی کو عدالت کو بتایا تھا کہ وہ کابینہ سیکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے گی جو ہم جنس جوڑوں کی شادی کے قانونی جواز کے معاملے میں جائے بغیر ان کے حقیقی خدشات کو دور کرنے کے لیے انتظامی اقدامات سے متعلق جائزہ لے گی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں زیر التوا درخواستوں کو جنوری میں اپنے پاس طلب کیا تھا۔ سینئر ایڈووکیٹ مینا کاگروسوامی نے ان درخواستوں کو سپریم کورٹ میں طلب کرنے کی اپیل کی تھی۔

مسلم مذہبی تنظیم جمعیت علمائے ہند نے یکم اپریل کو ایک درخواست میں ہم جنس شادی کی مخالفت کی تھی۔ ان کے بقول اسلام میں ہم جنس پرستی ممنوع ہے اور ان کا یہ مؤقف غیر متنازع ہے۔

جمعیت علمائے ہند کی جانب سے جرح کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ ہم جنس شادی کے سلسلے میں سپریم کورٹ سے قانونی جواز طلب کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ ان کے بقول ہم جنس افراد کی جانب سے جس چیز کی اجازت مانگی جا رہی ہے وہ بنیادی حق نہیں ہے۔ لیکن وہ معنی خیز ضرور ہے۔

بعدازاں چھ اپریل کو حقوقِ اطفال کے تحفظ کے لیےقائم' دہلی کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس' (ڈی سی پی سی آر) نے ایک درخواست میں عدالت کی معاونت کی اجازت مانگی تھی۔

حقوقِ اطفال سے متعلق قومی کمیشن 'نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس' (این سی پی سی آر) نے ہم جنس جوڑوں کی جانب سے بچوں کو گود لینے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہندو میرج ایکٹ 1955' اور 'جووینائل جسٹس ایکٹ 2015' ہم جنس جوڑوں کی جانب سے بچوں کو گود لینے کو تسلیم نہیں کرتے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردِعمل

سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر آدیش اگروال نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ بھارتی سماجی نظام کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ عدالت نے حکومت کا مؤقف تسلیم کیا ہے۔

ایک درخواست گزار اور انسانی حقوق کی کارکن انجلی گوپالن نے کہا کہ ایل جی بی ٹی کیو برادری اپنے حقوق کی لڑائی جاری رکھے گی۔

انہوں نے خبر رساں ادارے' اے این آئی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوری ملک ہے لیکن ہم اپنے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔

قانون دان کرونانندی نے کہا کہ اگر چہ حکومت کا مؤقف اس سلسلے میں واضح ہے لیکن اس کی جانب سے تشکیل کی جانے والی مجوزہ کمیٹی سے کچھ امید ہے۔

ایک اور درخواست گزار اور کارکن ہریش ایر نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ ہم جنس برادری کے حق میں نہیں ہے لیکن عدالت نے بعض مخصوص ریمارکس بھی دیے ہیں۔

دریں اثنا سکھوں کے مذہبی ادارے اکال تخت نے گزشتہ ماہ بٹھنڈہ میں ایک گروداوارے میں ہم جنس شادی کرانے پر مذہبی رہنماؤں کو نااہل قرار دے دیا ہے۔

بٹھنڈہ کے گرودوارہ کلغی دھار صاحب میں 18 ستمبر کو دو خواتین کی آپس میں شادی کرائی گئی تھی۔ اکال تخت کے جتھے دار نے امرتسر میں پیر کو اس معاملے میں شامل تین سکھ مذہبی رہنماؤں کو پانچ سال کے لیے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG