سپریم کورٹ نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کو فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار میجر آدتیہ کے خلاف درج ایف آئی آر پر کارروائی اور تحقیقات پر ایک بار پھر روک دی ہے۔
چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کا بینچ اب 24 اپریل کو اس پر حتمی سماعت کرے گا۔ میجر آدتیہ کے والد کرنل کرم ویر سنگھ نے سپریم کورٹ میں ایف آئی آر کو چیلنج کیا تھا۔
27 جنوری کو شوپیاں میں پتھراؤ پر آمادہ ایک ہجوم کو روکنے کے لیے ایک فوجی دستے نے فائرنگ کی تھی، جس کی قیادت میجر آدتیہ کر رہے تھے۔ اس میں تین شہری ہلاک ہوئے تھے۔ پولیس نے میجر آدتیہ اور فوجی دستے کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔
چیف جسٹس نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ میجر آدتیہ ایک آرمی افسر ہیں نہ کہ ایک عام مجرم۔
اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ چونکہ کشمیر میں فوج کو خصوصی اختیارات والا قانون AFSPA نافذ ہے لہٰذا مرکز کی اجازت کے بغیر کسی فوجی جوان کے خلاف کوئی شکایت بھی درج نہیں کی جا سکتی۔
کشمیرکی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل شیکھر نفاڈے نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز سے اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل AFSPA کی دفعات چار اور سات کا حوالہ دے رہے ہیں تو کیا یہ دفعات ”قتل کا لائسنس ہیں“۔ وینوگوپال نے لفظ ”قتل کا لائسنس“ پر اعتراض کیا۔
اس سے قبل 12 فروری کو بھی عدالت عظمیٰ نے کارروائی پر روک لگائی تھی۔
فوج کا کہنا ہے کہ اس نے عمداً فائرنگ نہیں کی تھی بلکہ اپنے دفاع میں کی تھی۔
دریں اثنا مفتی حکومت نے عدالت میں پیش اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایف آئی آر میں میجر آدتیہ کا نام نہیں ہے۔