رسائی کے لنکس

مرگی کے بارے میں آگہی کا عالمی دن


اس دن لوگ جامنی رنگ کا لباس پہنتے یا لاوینڈر ربن کا استعمال کرتے ہیں اور مرگی کے مرض میں مبتلا افراد کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں ہر سال 26 مارچ کو مرگی کا عالمی دن منایا گیا، اس دن کو 'پرپل ڈے' بھی کہا جاتا ہے، جسے مرگی کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے وقف کیا گیا ہے۔

اس دن لوگ جامنی رنگ کا لباس پہنتے یا لاوینڈر ربن کا استعمال کرتے ہیں اور مرگی کے مرض میں مبتلا افراد کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں۔

'لاوینڈر' پودے کو مرگی کے بارے میں شعور کا رنگ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ مرگی میں مبتلا افراد کے 'الگ تھلگ رہنے' اور ان کی 'تنہائی' کے غالب احساس کی نمائندگی کرتا ہے۔

پرپل ڈے کی تاریخ : یہ دن پہلی بار 2008 ء میں منایا گیا جب کینیڈا کے صوبے نوا اسکوشیا سے تعلق رکھنے والی ایک آٹھ سالہ طالبہ کیسی ڈی میگن نے مرگی ایسوسی ایشن کی طرف سے اس کی کلاس کی ایک پریزینٹیشن میں اپنی مرگی کی کیفیت کے بارے میں اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا۔ اگرچہ وہ خوفزدہ تھی کہ اس کا مذاق اڑایا جائے گا لیکن بعد میں اس نے مرگی میں مبتلا مریضوں کی حمایت کرنے کے لیے پرپل ڈے منانے کا خیال پیش کیا اور پچھلے آٹھ برسوں میں اس کا پیغام دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور یہ دن مرگی کے بارے میں شعور پھیلانے کا ایک بین الاقوامی دن بن گیا ہے۔

مرگی کیا ہے ؟ مرگی ایک دماغی یا اعصابی خرابی ہے۔ اس کیفیت میں دورے پڑتے ہیں جو دماغ کے فعل میں ایک عارضی برقی خلل یا کیمیائی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے۔ یہ مرض عام طور پر اس وقت تشخیص کیا جا سکتا ہے جب ایک شخص کو اس کا دورہ پڑتا ہے۔

مرگی واحد مرض نہیں ہے بلکہ یہ مختلف کیفیات کی علامت ہے۔ جس میں دماغی مرض یا اعصابی خرابی تقریباً سبھی صورتیں مرگی کا حصہ بن سکتی ہیں لیکن اکثر اس کی وجوہات نامعلوم ہیں۔

مرگی کے دوروں کو عام طور پر دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے جنھیں جنرلائزڈ (عمومی) اور فوکل (ایک مقام تک محدود) کہا جاتا ہے۔

مرگی کی علامات ایک سی نہیں ہوتی ہیں: عام دوروں میں مرگی کے مریضوں کو غافل ہونے کے مختصر دورے پڑتے ہیں، جس میں مریض اچانک اپنا کام یا حرکت روک دیتا ہے اور مخاطب کرنے پر جواب نہیں دیتا ہے اور اپنے غیر حاضر دماغ کے ساتھ خلا میں گھورتا ہے یہ وقفہ چند سیکنڈوں پر محیط ہو سکتا ہے اور ایک دن میں کئی مرتبہ ایسا ہو سکتا ہے۔

جسم کا اکڑنا یا جھٹکے پڑنے کی علامات کے ساتھ مریض بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم میں اکڑاؤ پیدا ہوتا ہے اور سارا جسم جھٹکے کھانے لگتا ہے اور منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے۔

جسم ڈھیلا پڑنے کے دورے میں مریض کی اچانک سے توانائی ختم ہو جاتی ہے اور وہ کہیں بھی ڈھیر ہو جاتا ہے اور اچانک دورہ پڑنے کی وجہ سے اکثر جسمانی چوٹوں کا خطرہ رہتا ہے یہ دورے مختصر ہوتے ہیں۔

آگاہی کی ضرورت کیوں ہے؟ یہ اعصابی شکایت کی چوتھی بڑی بیماری ہے، جو تمام عمر کے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

لوگ اس مرض کو کیا سمجھتے ہیں اور اس بیماری میں مبتلا افراد کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں یہ وہ سوالات ہیں جن کی وجہ سے اکثر اس مرض کو بدنامی کا باعث سمجھ کر چھپایا جاتا ہے اور نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ مرض پیچیدگی اختیار کر سکتا ہے۔

دنیا کے کچھ ملکوں میں رہنے والے لوگ آج بھی اس مرض کو نحوست قرار دیتے ہیں بھارت اور چین میں شادی سے انکار کے لیے یہ ایک سماجی جواز بن سکتا ہے حتیٰ کہ برطانیہ میں 1970ء کے قوانین کے تحت ایک مرگی میں مبتلا شخص کو شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح تنزانیہ اور افریقی ممالک میں مرگی کو بری روحوں اور جادو کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے جبکہ اسے متعدی مرض بھی خیال کیا جاتا ہے۔

مرگی کا علاج منشیات سے کیا جاسکتا ہے : بیماریوں کے علاج کے لیے منشیات کے استعمال پر پابندی عائد ہے لیکن طبی تحقیق کی بنیاد پر امریکہ کی کئی ریاستوں نے مرگی کے علاج میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بچوں اور بالغوں میں مرگی کے علاج کے لیے بھنگ یا چرس کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔

کیا مرگی کے ساتھ نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے: نارمل زندگی گزارنے کےحوالے سے آئندہ امکانات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مرگی کی وجہ کیا ہے بالعموم یہ کہا جاسکتا ہے کہ غافل ہو جانے کے دوروں کے مریضوں کے لیے اچھے امکانات ہوتے ہیں۔

یہ مرض ترقی پذیر ممالک میں زیادہ عام ہے : اگرچہ مرگی کا مرض ساری دنیا میں عام ہے لیکن، اس مرض نے ترقی پذیر ممالک کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ دنیا بھر میں اس اعصابی خرابی میں مبتلا افراد کی تعداد لگ بھگ 50 لاکھ ہے لیکن تقریباً 80 فیصد مرگی میں مبتلا افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔

علاوہ ازیں تحقیقی مطالعوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں سر کی چوٹ، پیدائش کی پیچیدگیاں اور انفیکشن کی بیماریوں کی وجہ سے مرگی میں مبتلا افراد کی تعداد زیادہ ہے، دوسری طرف تقریباً 60 فیصد سے زیادہ اس مرض میں مبتلا افراد کی مناسب دیکھ بھال تک رسائی نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG