رسائی کے لنکس

داعش کے ہاتھوں بے دخل ہونے والے عراقی مسیحیوں کی واپسی


مار شمعونی چرچ کی دعائیہ تقریب میں شریک مسیحی
مار شمعونی چرچ کی دعائیہ تقریب میں شریک مسیحی

آشوری راہب یعقوب سعدی نے کہا کہ یہ اجتماع ایک طرح کی مزاحمت بھی ظاہر کرتا ہے۔

دنیا بھر کے مسیحیوں کی طرح عراق کے سیکڑوں مسیحی کرسمس کا تہوار منانے کے لیے موصل کے قریب اپنے آبائی علاقے میں جمع ہیں۔

نینوا صوبے کے شہر موصل کے مضافات میں برطلہ کا علاقہ ہزاروں آشوری مسیحیوں کا آبائی علاقہ ہے جس پر اگست 2014ء میں شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کر لیا تھا۔

اس تنظیم کے شدت پسندوں نے یہاں مار شمعونی چرچ میں توڑ پھوڑ کی اور مذہبی علامات کو نقصان پہنچانے کے بعد اسے نذر آتش کر دیا تھا۔

ایک سکیورٹی اہلکار چرچ میں تقریب کے موقع پر چوکس ہے
ایک سکیورٹی اہلکار چرچ میں تقریب کے موقع پر چوکس ہے

عراقی فورسز نے موصل کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے شروع کی گئی کارروائی کے دوران رواں سال اکتوبر میں برطلہ کا قبضہ واگزار کروایا تھا۔ لیکن یہاں کی مقامی آبادی واپس اس علاقے میں آنے سے قاصر تھی کیونکہ لڑائی کے باعث یہاں شدید تباہی ہوئی تھی اور بنیادی سہولیات زندگی کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں کی طرف سے یہاں مختلف مقامات پر بم بھی نصب کیے گئے تھے۔

عراقی کرد خطے کے صدر مقام اربیل سے مسیحی پیروکار بسوں کے ذریعے برطلہ پہنچے جہاں کسی زمانے میں آباد رہ چکے ہیں۔

ہفتہ کی شام یہاں خصوصی دعائیہ تقریب کے آغاز پر خواتین نے خوشی سے بھرپور مخصوص انداز میں نعرے لگائے اور پھر سب ہی لوگ اپنے اپنے ہاتھوں میں روشن شمعیں تھامے چرچ میں داخل ہوئے۔

خواتین میں شمع روشن کیے چرچ میں داخل ہو رہی ہیں
خواتین میں شمع روشن کیے چرچ میں داخل ہو رہی ہیں

بشپ موسیٰ شیمانی نے خبررساں ایجنسی "روئٹرز" کو تقریب شروع ہونے سے قبل بتایا کہ "یہ موقع خوشی اور دکھ کے امتزاج کا لمحہ ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر دکھ ہو رہا ہے کہ ہمارے مقدس مقام کے ساتھ ہمارے ہم وطنوں کی طرف سے کیا کیا گیا، لیکن ہم اس پر خوش ہیں کہ دو سال بعد ہم پہلی مرتبہ یہاں خوشی منانے کے لیے جمع ہیں۔"

تاہم تقریب کے اختتام پر آشوری راہب یعقوب سعدی نے کہا کہ یہ اجتماع ایک طرح کی مزاحمت بھی ظاہر کرتا ہے۔

"ہم مسیحی اس ملک کے سب سے قدیم جز ہیں، ہم یہیں ہیں اور کوئی طاقت ہمیں یہاں سے نکال نہیں سکتی۔"

اندازاً ایک درجن کے لگ بھگ امریکی فوجیوں اور عراقی فورسز کے ایک سو اہلکاروں پر مشتمل دستے نے بھی اس تقریب میں شرکت کی جو کہ یہاں کے عبادت گزاروں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی عکاسی کرتی ہے۔

اس تقریب سے قبل رضا کاروں نے چرچ کو بحال کرنے اور صفائی کے عمل میں حصہ لیا۔ بہت سے مسیحی عبادت گزاروں کے لیے برطلہ کا موجودہ حلیہ تکلیف دہ حد تک حیران کن تھا۔ یہ ایک زمانے میں 25 ہزار آبادی والا متنوع شہر تھا جہاں اب صرف چند ایک گھر ہی تباہی سے محفوظ نظر آتے ہیں۔

یہاں آنے والی 20 سالہ نوین ابراہیم کہتی ہیں کہ "ہماری خوشی ہمارے دکھ سے بڑی ہے۔ میرا خیال تھا کہ ہم کبھی یہاں واپس نہیں آ سکیں گے۔ گھر دوبارہ مرمت ہو سکتا ہے لیکن ہمارے اندر جو تکلیف اور درد ہے اس کا مداوا نہیں، ہماری حفاظت کون کرے گا۔"

نوین کو 2014ء میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ یہاں سے منتقل ہونا پڑا تھا۔

XS
SM
MD
LG