بھارت کے اعلٰی سطحی وفد نے چند روز قبل افغانستان میں طالبان حکومت کے اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں بھی زور پکڑ رہی ہیں کہ بھارت بہت جلد کابل میں اپنا بند سفارت خانہ دوبارہ کھولنے والا ہے۔
بھارت یا افغانستان میں طالبان حکومت نے اس حوالے سے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، تاہم حالیہ رابطوں کو فریقین کے درمیان اعتماد سازی کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت نے گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد اپنا سفارتی مشن بند کر دیا تھا۔ بھارت نے کابل میں اپنے سفارت خانے کے علاوہ افغانستان کے مختلف شہروں میں موجود اپنے قونصل خانے بھی بند کر دیے تھے۔
بھارت اور افغان طالبان کے تعلقات میں سردمہری کی تاریخ رہی ہے اور بھارت کے افغان طالبان سے زیادہ اُن کے حریف شمالی اتحاد کے ساتھ مضبوط روابط رہے ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی حکومت اور اس سے قبل حامد کرزئی کی انتظامیہ کے ساتھ بھی بھارت کے بہترین روابط رہے ہیں۔
تجزیہ کار بھارت کے افغان طالبان کے ساتھ روابط کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے اسے خطے کی سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں اہم قرار دے رہے ہیں۔
سابق بھارتی سفارت کار اور 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھارتی سفارتی مشن کے رُکن گوتم مکھوپادھیا کا کہنا ہے کہ بھارتی حکام کاحالیہ دورہ افغان عوام پر یہ واضح کرتا ہے کہ بھارتی حکومت اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے گوتم مکھو پادھیا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس 15 اگست کے بعد بھارت نے افغانستان میں اپنا مشن سیکیورٹی خدشات کے باعث معطل کیا تھا۔
اُن کے بقول اُنہیں لگتا ہے کہ بھارتی وفد نے افغانستان میں سفارتی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے طالبان سے یقین دہانیاں مانگی ہوں گی۔
طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی روابط نہ ہونے کے باوجود بھارت نے گزشتہ برس اگست سے لے کر اب تک انسانی بنیادوں پر افغانستان کو 20 ہزار میٹرک ٹن گندم کے علاوہ ادویات، کرونا ویکسین اور موسمِ سرما کے ملبوسات بھی بطور عطیہ افغانستان بھجوائے تھے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید اناج اور ادویات افغانستان بھجوائی جائیں گی۔ بھارت نے ایران میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے لیے بھی کرونا ویکسین کی 10 لاکھ ڈوزز بھجوائی تھیں۔
گوتھم مکھوپادھیا کے مطابق اب جب کہ بھارت نے افغانستان کے ساتھ باضابطہ طور پر تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو طالبان حکومت کو بھی اس کا فائدہ ہو گا کہ دنیا کا ایک بڑا ملک بھی اُن سے سفارتی روابط رکھنا چاہتا ہے۔
اُن کے بقول یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ بھارتی وفود طالبان سے مل رہے ہیں بلکہ طالبان کے اقتدار سے قبل بھی ملاقاتوں کا یہ سلسلہ دنیا کے مختلف ممالک میں جاری تھا جو کہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر افشا نہیں کیا جا رہا تھا۔
'بھارت نہیں چاہتا کہ وہ افغانستان کو مکمل طور کھو دے'
سابق سفارت کار کے مطابق خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے بھی بین الاقوامی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے طالبان کے ساتھ روابط بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا ایک اجلاس ہوا تھا جس میں افغانستان کا ایجنڈا سر فہرست تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ میزبان ملک بھارت کا کابل میں کوئی مشن موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یورپی یونین سمیت دنیا کے کئی دیگر ممالک نے افغانستان میں اپنے مشن دوبارہ سے کھول لیے ہیں۔البتہ کسی بھی ملک نے تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
گوتھم مکھو پادھیا کا مزید کہنا تھا کہ بھارت اس تاثر سے باہر نکلنا چاہتا ہے کہ اس نے افغانستان کو مکمل طور پر کھو دیا ہے۔ اب وہ دوبارہ سے اپنی اہمیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا اور افغان عوام پر واضح کر دینا چاہتا ہے کہ بھارت طالبان کے دور میں بھی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
گوتھم مکھو پادھیا کے مطابق طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارت نے اب افغانستان کی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت مکمل طور پر چھوڑ دی ہے بلکہ بھارت کی یہ کوشش ہو گی کہ ملک میں جامع امن کی جانب فریقین کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔
سابق سفارت کار کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کے پہلے دور حکومت 1996-2001 میں بھارت نے افغانستان میں تمام تر سفارتی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔
بھارت نے جب 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اپنا سفارتی مشن بحال کیا تو سابق افغان صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں بھارتی سفارتی مشن کو دہشت گردی کی کارروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
طالبان حکومت کے وزیر دفاع ملا یعقوب نے بھارتی ٹی وی چینل کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت کے ساتھ بھی خوش گوار تعلقات استوار کرنے کا حامی ہے۔
ملا یعقوب کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات بحال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پہلے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے چاہئیں۔
اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر آتے ہیں تو طالبان افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت کے لیے بھارت بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔
خیال رہے کہ اشرف غنی اور حامد کرزئی کے ادوار میں بھی افغان سیکیورٹی فورسز کے کیڈٹس تربیت کے لیے بھارت جاتے رہے ہیں۔
'طالبان چاہتے ہیں کہ بھارت انسانی بنیادوں پر ان کے ساتھ تعاون کرے'
دوسری جانب سیاسی تجزیہ نگار افغان فورسز کی بھارت میں تربیت کے معاملے کو موجودہ حالات کے تناظر میں حقیقت کے برعکس قرار دیتے ہیں۔
کابل کی کاردان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے سابق سربراہ فہیم سادات نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فی الحال طالبان کی یہ خواہش ہے کہ بھارت ان کی انسانی بنیادوں پر امداد میں معاونت کرے۔ کیونکہ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کی جانب سے امداد ہمیشہ سے بڑی مقدار میں رہی ہے۔
فہیم سادات کے مطابق گزشتہ 20 برسوں میں بھارتی حکومت نے افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ اسی لیے افغانستان کی عوام ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور یہ بات طالبان بھی بخوبی جانتے ہیں۔
فہیم سادات کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ وہ سفارتی لحاظ سے اپنے دائرۂ کار کو آگے بڑھائیں اور ہمسایہ ملک پاکستان پر سے اپنا انحصار کسی حد تک کم کرسکے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ سفارتی لحاظ سے ان کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران، بھارت اور وسطی ایشیا کی صورت میں دیگر آپشنز بھی موجود ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت تقریباً ایک سال کے طویل ہوم ورک کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں اور مستقبل قریب میں اقتدار انہی کے ہاتھ میں ہو گا۔ کیوں کہ بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان مکمل طور پر پاکستان کے زیرِ اثر رہے۔
بھارتی وفد کے حالیہ افغانستان کے دورے پر بات کرتے ہوئے پاکستانی دفتر ِ خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کے بارے میں پاکستانی خدشات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان سابقہ افغان حکومتوں کے دوران یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ بھارت کے افغانستان میں سفارتی مشن پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں۔ تاہم بھارت ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
کابل میں مقیم صحافی فہیم وردک کہتے ہیں کہ طالبان چاہتے ہیں کہ وہ اپنے روابط کو بڑھائیں اور امریکہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں اُن کی حکومت کو تسلیم کریں۔ لہذٰا اُن کے بقول طالبان یہ چاہیں گے کہ بھارت کابل میں اپنا سفارت خانہ کھولے۔
فہیم وردک کے بقول اس حکمتِ عملی کے ذریعے طالبان پاکستان پر بھی یہ دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو کم سے کم کر سکیں۔