رسائی کے لنکس

کیا خالصتان تحریک ایک بار پھر بھارت کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہے؟


حالیہ دنوں میں خالصتان تحریک کے حوالے سے بھارت اور دیگر ملکوں میں اتنے واقعات پیش آئے ہیں کہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس سوال پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا یہ تحریک ایک بار پھر بھارت کی سلامتی و یکجہتی کے لیے خطرہ بن گئی ہے؟

اس سے قبل 80 کے عشرے میں ایک علیحدگی پسند سکھ جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کی قیادت میں اس تحریک نے زور پکڑا تھا جو اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کی جانب سے چلائے جانے والے ’آپریشن بلیو اسٹار‘ کے نتیجے میں ختم ہو گئی تھی۔

اس تحریک کے دوبارہ ابھرنے کے پیشِ نظر بھارتی وزیرِ اعظم نریند رمودی نے جمعرات کی شب میں اپنے برطانوی ہم منصب رشی سونک سے فون پر بات کی اور برطانیہ میں موجود خالصتان کے حامی عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی۔ اُنہوں نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن اور اس کے عملے کی سیکورٹی کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔

جمعرات کو نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ بھارت ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی چاہتا ہے جنہوں نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر تشدد کیا تھا۔ بھارت برطانیہ پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ سفارت خانے اور اس کے عملے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے اقدامات کرے۔

اس سے قبل بدھ کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والے ’بھارت برطانیہ ہوم افیئرز ڈائیلاگ‘ کے دوران بھی یہ معاملہ اٹھا اور بھارت نے برطانیہ میں خالصتان کے حامی عناصر کی جانب سے پناہ گزیں اسٹیٹس سے ناجائز فائدہ اٹھانے پر تشویش ظاہر کی۔ اس نے برطانیہ میں موجود خالصتانی انتہا پسندوں پر نظر رکھنے میں تعاون پر زور دیا۔

قبل ازیں گزشہ ماہ وزیر اعظم مودی نے نئی دہلی کے دورے پر آنے والے آسٹریلیائی وزیر اعظم اینتھنی البانیز کے سامنے بھی یہ معاملہ اٹھایا اور آسٹریلیا میں ایک علیحدہ ملک خالصتان کی حمایت میں ریفرنڈم کرانے کی اجازت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

گزشتہ ماہ پنجاب کی ایک خالصتان حامی تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ کے رہنما امرت پال سنگھ کے خلاف پنجاب پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد خالصتان نواز افراد نے لندن میں بھارتی سفارت خانہ کے باہر احتجاج کیا اور اس پر حملہ کیا تھا۔انہوں نے سفارت خانے کی عمارت پر چڑھ کر بھارتی پرچم اتار کر خالصتانی پرچم لہرا دیا تھا جسے بعد میں سفارت خانہ کے عملہ نے ہٹا کر بھارتی پرچم نصب کیا تھا۔


امریکہ اور کینیڈا میں بھی علیحدہ خالصتان ملک کے حامیوں نے بھارتی سفارت خانوں کے باہر احتجاج کیا جب کہ آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں وقتاً فوقتاً خالصتان کے حق میں ریفرنڈم کرائے جاتے رہے ہیں۔

پنجاب کی خالصتان نواز تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ نے اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ جن میں متعدد مسلح تھے، رواں سال کی 24 فروری کو پنجاب میں اجنالہ پولیس تھانے پر دھاوا بولا اور وہاں اغوا کے ایک معاملے میں لاک اپ میں بند اپنے ایک ساتھی لو پریت سنگھ کو چھرانے کی کوشش کی۔ بعد میں پولیس کو انہیں رہا کرنا پڑا تھا۔

ان واقعات کی روشنی میں تجزیہ کار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا علیحدہ خالصتان ملک کی تحریک ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے اور کیا یہ معاملہ حکومت کے لیے دردِ سر بنتا جا رہا ہے؟

خیال رہے کہ پنجاب کی پولیس امرت پال سنگھ کو 18 مارچ سے تلاش کر رہی ہے لیکن وہ انہیں پکڑ پانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ اس پر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ حکومت کی سرزنش کر چکی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی تک ایسے معاملات سفارتی سطح پر اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اس معاملے پر خود وزیرِ اعظم کی برطانیہ اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم سے گفتگو معاملے کی حساسیت کا ظاہر کر دی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے درمیان آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر مغربی ملکو ں میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے مندروں پر حملے ہوئے اور جگہ جگہ بھارت مخالف اور بالخصوص مودی حکومت کے خلاف نعرے لکھے گئے۔


آسٹریلیا اور بعض دیگر ملکوں میں خالصتان نواز عناصر اور بھارت حامی طبقات کے درمیان تصادم کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس معاملے پر حکومت میں اعلیٰ سطح پر تشویش پائی جاتی ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ خالصتانی علیحدگی پسند گروپ از سرنو منظم ہو رہے ہیں اور وہ غیر ملکی سرزمین سے پنجاب کے اندر بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

'بھارت کے لیے یہ صورتِ حال باعثِ تشویش ہے'

پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ اس معاملے پر بھارت کی تشویش کو اعلیٰ سطح پر بہت وا ضح انداز میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قسم کے واقعات باعث تشویش ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں بھارتی تارکینِ وطن کی خاصی تعداد ہے اور بھارتی نژاد رشی سونک وہاں کے وزیر اعظم ہیں۔ لہٰذا یہ بات محسوس کی گئی کہ اس سلسلے میں اعلیٰ سطح پر گفتگو ہونی چاہیے۔

ان کے مطابق بھارت نہیں چاہتا کہ علیحدگی پسند عناصر برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا وغیرہ میں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوں۔ اسی لیے جہاں ایک طرف سفارتی سطح پر یہ معاملہ اٹھایا جاتا رہا ہے وہیں اعلیٰ سطح پر بھی اٹھایا جا رہا ہے۔


ان کے خیال میں رشی سونک اور اینتھنی البانیز کے سامنے وزیر اعظم مودی کی جانب سے اس معاملے کو اٹھانے کو اسی تناطر میں دیکھاجانا چاہیے۔

آسٹریلیائی وزیر اعظم سے گفتگو کے تناظر میں بھارت کے خارجہ سیکریٹری ونے کواترا کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ خالصتان حامی عناصر دونوں ملکوں میں امن و ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

'بھارت کے اندر خالصتان تحریک کو زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے'

ایک تجزیہ کار پرنے شرما اپنے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ اگر چہ پنجاب میں عشروں سے مجموعی طور پر امن ہے لیکن سکھ برادری کے ایک گروپ اور بھارت مخالف طاقتوں کی جانب سے غیر ملکی سرزمین سے بھارت کے اندر گڑبڑ کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ہرویر سنگھ کے مطابق بعض غیر ممالک میں ایسے عناصر سرگرم ہیں جو خالصتان کا معاملہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت کے اندر علیحدہ خالصتان تحریک کو کوئی حمایت حاصل نہیں ہے۔ پنجاب کی سکھ برادری بھی اس تحریک کو مسترد کر چکی ہے۔ غیر ملکوں سے آنے والی خبروں کے مقابلے میں زمینی سچائی بالکل الگ ہے۔

ان کے خیال میں سکھ برادری کے اعلیٰ ادارے ’گرودوارہ پربندھک کمیٹی‘ اور سکھوں کے اعلیٰ مذہبی مقام ’اکال تخت‘ نے بھی اس کی حمایت کبھی نہیں کی۔ بلکہ اکال تخت نے امرت پال کی اس خواہش کو مسترد کر دیا کہ وہ اکال تخت میں سرینڈر کرنا چاہتے ہیں۔ اکال تخت کے چیف گیانی ہرپریت سنگھ نے ان سے کہا ہے کہ وہ پولیس میں جا کر سرینڈر کریں۔

پرنے شرما کے مطابق مارچ میں آسٹریلیا کے شہر برسبین میں شری لکشمی نرائن مندر پر حملہ ہوا۔ جب کہ حالیہ مہینوں میں خاص طور پر کینیڈا میں متعدد ہندو مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی گئی اور بھارت محالف نعرے لکھے گئے۔ گزشتہ سال نیویارک میں ایک مندر کے باہر مہاتما گاندھی کے مجسمے کو توڑا گیا۔

ہرویر سنگھ کے مطابق جن ملکوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں وہاں کی حکومتوں نے ان کی مذمت کی ہے او رکہا ہے کہ وہ انتہاپسندی کی حمایت نہیں کرتیں۔

پرنے شرما کی اس بات پر کہ برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی حکومتوں نے خالصتان کے حامیوں کو احتجاج او رریفرنڈم کی اجازت دے دے رکھی ہے، ہرویر سنگھ کا کہنا تھا کہ ان ملکوں کا مزاج کہیں زیادہ جمہوری ہے۔ وہاں انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار کی آزادی کو اولیت حاصل ہے۔ اس لیے وہاں ایسی سرگرمیوں کی چھوٹ ہے۔

بھارت کی ہندو احیا پسند جماعت ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) کے نظریات کے حامل صحافی اور آر ایس ایس کے انگریزی ترجمان ’آرگنائزر‘ کے سابق مدیر ششادری چاری کہتے ہیں کہ بھنڈراں والا کی قیادت میں 1980 کے عشرے میں چلنے والی خالصتان تحریک کا خاتمہ المناک انداز میں ہوا تھا۔ لیکن اب ایک بار پھر اسے زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں ان کا کہنا ہے کہ یہ افسوسناک ہے کہ جن ملکوں میں بھارت مخالف سرگرمیاں انجام دی گئیں وہاں کی حکومتیں بھارتی سفارت خانوں کے تحفظ میں ناکام رہیں جس کی وجہ سے مجبور ہو کر بھارتی حکومت کو یہ معاملہ اعلیٰ سطح پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔

خیال رہے کہ بھنڈراں والا کی قیادت میں چلنے والی علیحدگی پسندی کی تحریک کو نیست و نابود کرنے کے لیے یکم جون سے 10 جون 1984 تک ’آپریشن بلیو اسٹار‘ چلایا گیا تھا جس میں سکھوں کے سب سے متبرک مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل امرتسر میں پناہ گزیں بھنڈراں والا اور ان کے ساتھی ہلاک ہوئے تھے۔

اس کارروائی کے انتقام کے طور پر 31 اکتوبر 1984 کو وزیر اعظم اندرا گاندھی کے محافظوں نے نئی دہلی میں ان کی رہائش گاہ پر انھیں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا جس کے بعد دہلی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں سکھ ہلاک ہوئے تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی ایسی نوبت نہیں آئی ہے کہ کوئی آپریشن چلایا جائے۔ لیکن غیر ملکوں میں جاری سرگرمیاں بھارتی حکومت کے لیے تشویش کا سبب ہیں۔

وہ امرت پال سنگھ کو پکڑ پانے میں پولیس کی ناکامی کو بھی تشویش کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر امرت پال کو اندرونی طور پر سکھ برادری سے حمایت نہ مل رہی ہوتی تو اب تک وہ گرفتار کیے جا چکے ہوتے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG