رسائی کے لنکس

اسرائیل نے غزہ میں حملوں کے وقفے میں توسیع کی اپیل مسترد کر دی


9 نومبر 2023 کو وسطی غزہ کی پٹی میں اسرائیل اورسلامی گروپ حماس کے درمیان جاری تنازعہ کے درمیان شمالی غزہ سے فرار ہونے والے فلسطینی جنوب کی طرف جا رہے ہیں۔
9 نومبر 2023 کو وسطی غزہ کی پٹی میں اسرائیل اورسلامی گروپ حماس کے درمیان جاری تنازعہ کے درمیان شمالی غزہ سے فرار ہونے والے فلسطینی جنوب کی طرف جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کے روز اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفے میں توسیع کرے‘‘ تاکہ خاص طور پر بچوں کے تحفظ کو یقینی بنا یا جا سکے۔ تاہم اسرائیل نے فوری طور پر اس اقدام کو مسترد کردیا۔

مالٹا کی سفیر وینیسا فریزیئر نے مذاکرات کی قیادت کی اور متن کا مسودہ تیار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ مسودہ قرارداد اس تاریک گھڑی میں امیدکی کرن پیدا کرنا چاہتا ہے۔اس کا مقصد تمام متاثرین کے خاندانوں کو امید دینا اور موجودہ خوفناک صورت حال کے حل کو یقینی بنانا ہے۔مسودہ خاص طور پر جنگ میں پھنسے بچوں اور یرغمال بنائے گئے افراد کی حالت زار پر مرکوزہے۔‘‘

اس قرار داد میں غزہ میں ’’ کافی دنوں کے لیے انسانی بنیادوں پر وقفے میں توسیع اور محفوظ راہداریوں‘‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ امداد پہنچائی جا سکے۔ اسپتالوں، پانی کے کنوؤں اور بیکریوں جیسے اہم انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت کی جا سکے اور طبی بنیادوں پر انخلا کو ممکن بنایا جا سکے۔ خاص طور پر بچوں کا انخلاء یقینی بنایا جا سکے۔ اس قرارداد میں حماس اور دیگر گروپوں کی تحویل میں موجود ’ ’تمام یرغمالوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی‘‘ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

سلامتی کونسل کی قراردادیں قانونی طور پر پابند کرتی ہیں لیکن ان میں نامزد فریق اکثر انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور یوں اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلتے۔

اسرائیل کے ایلچی نے کونسل کو بتایا کہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی قانون کی پاسداری یاد دلانے کے لیے کسی قرارداد کی ضرورت نہیں ہے جب کہ حماس ’’اسے پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرے گی۔‘‘

اسرائیل کے نائب ایلچی بریٹ جوناتھن ملر نے کہا کہ ’’اسی لیے یہ قرارداد زمینی حقائق کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔ اپنے یرغمالوں کو واپس لانا اسرائیل کی اولین ترجیح ہے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کا دہشت گردوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا ،اسرائیل اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔ ‘‘

یہ قرارداد کونسل کی پانچویں کوشش تھی جس کا مقصد 40 روز سے جاری جنگ میں کسی نہ کسی شکل میں جنگ بندی کرانا تھا۔ کونسل کی جانب سے کی گئی گزشتہ کوششیں ویٹو اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے ساتھ ختم ہوئیں۔

27 اکتوبر کوجنرل اسمبلی نے پیش رفت کی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی قرارداد منظور کی۔ عرب ریاستوں کی طرف سے تجویز کردہ قرارداد میں لڑائی کو فوری طور پر روکنے، غزہ کو امداد کی محفوظ فراہمی کو یقینی بنانے اور قید کیے گئے تمام شہریوں کی رہائی کے لیے کہا گیا۔

تاہم جنرل اسمبلی کی قراردادیں قانونی طور پر پابند نہیں کرتیں اور جب ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی تو اسرائیل نے اپنی زمینی جنگ شروع کر دی۔

اسرائیل حماس لڑائی
اسرائیل حماس لڑائی

سلامتی کونسل کے 12 ارکان نے بدھ کے روز قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ تین مستقل ارکان یعنی برطانیہ، روس اور امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

متحدہ عرب امارات کونسل میں عرب علاقائی بلاک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کی سفیر لینا نصیبے نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ قرارداد زندگیاں بچا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’’تاہم میں اس بات پر زور دینا چاہتی ہوں کہ آج کی قرارداد کی منظوری سے ہی اس جنگ اور اس بحران کے بارے میں ہمارے ردعمل کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘

ا نہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’بہت زیادہ وقت گزر چکا ہے، متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ ‘‘

یہ قرارداد مختصر ہے اور اس میں کوئی سیاسی عوامل بھی شامل نہیں ہیں۔ متن میں اسرائیل کے نام کے ساتھ حوالہ نہیں دیا گیا ہے جب کہ صرف ایک بار حماس کا ذکر کیا گیا ہےاور وہ بھی تقریباً 240 یرغمالوں کے سلسلے میں جو اس نے اور دیگر عسکریت پسند گروہوں نے غزہ میں اپنی تحویل میں رکھے ہوئے ہیں۔

امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے واشنگٹن کی شرکت نہ کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کسی ایسے متن پر ’ہاں‘ کا ووٹ نہیں دے سکتا جس میں حماس کی مذمت نہ کی گئی ہو اور نہ ہی رکن ممالک کے اپنے شہریوں کو دہشت گرد حملوں سے بچانے کے حق کی توثیق کی گئی ہو۔‘‘

برطانیہ کے نمائندے نے اسی موقف کو دہرایا۔حماس کو امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

روس نے قرارداد کے مسودےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی اور جنرل اسمبلی کی قرارداد میں اضافہ کیا گیا۔ اس میں ’’فوری، پائیدار اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیر پا جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا جس سے دشمنی کا خاتمہ ہو۔‘‘

لیکن اسے مالٹا کی جانب سے تیار کیے گئے مسودے میں شامل کرنے کے لیے کونسل کی کافی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے روس نے بھی ووٹنگ میں حصہ لینے سے اجتناب کیا۔

اسرائیل-حماس جنگ: مغربی کنارے کا قصبہ 'گھوسٹ ٹاؤن' بن گیا
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:16 0:00

حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل کے اندر دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اب تک 4500 سے زیادہ فلسطینی بچے ہلاک اور تقریباً 9000 زخمی ہو چکے ہیں۔ مزید کئی بچے لاپتہ ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ میں ملبے تلے دب کر مرنے والوں میں شامل ہیں۔

ان دہشت گردانہ حملوں کے دوران اسرائیل میں کم از کم 31 بچے مارے گئے جب کہ مبینہ طور پر غزہ سے تقریبًاً 30 بچے اغوا کیے گئے ہیں جن میں ایک 3 سالہ امریکی بچہ بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کی سربراہ نے بدھ کے روز غزہ کا دورہ کیا۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا کہ ’’میں یہاں اس لیے حاضر ہوئی ہوں تاکہ بچوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کر سکوں۔ میں ایک بار پھر تمام فریقوں سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق بچوں کی حفاظت اور مدد کی جائے۔ اس تنازع میں شامل فریق ہی اس ہولناکی کو صحیح معنوں میں روک سکتے ہیں۔‘‘

مارگریٹ بشیر ۔ وائس آف امریکہ

فورم

XS
SM
MD
LG