رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں 14 سال قید کا معاوضہ پانچ لاکھ روپے


دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں 14 سال قید کاٹ کر بری ہونے والے محمد عامر اپنی آپ بیتی میڈیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں 14 سال قید کاٹ کر بری ہونے والے محمد عامر اپنی آپ بیتی میڈیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

یہ کہانی ہے دہلی کے محمد عامر خان کی، جنہیں 1998 میں دہلی پولیس نے سلسلے وار بم دھماکوں کا ملزم بنا کر پیش کیا۔ ان پر بم دھماکوں کے 17 مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ عدالت نے 2012 میں انہیں تمام مقدموں میں بری کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔

اٹھارہ سال کی عمر میں جیل جانے والا عامر جب 12 سال بعد قید کاٹ کر باہر آیا تو اس کی دنیا بندل چکی تھی۔ اس کے والد جدائی کا غم سہہ نہ سکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے۔ اس کی ماں بیٹے کے بچھڑنے کے دکھ میں فالج کا شکار ہو چکی تھی۔ جوانی سلاخوں کے پیچھے ختم ہو گئی تھی اور زندگی ایک عذاب کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس کی پیشانی پر دہشت گرد ہونے کا ٹھپہ لگ گیا تھا۔ دہلی پولیس نے اسے تلافی کے طور پر پانچ لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ لیکن وہ سوال کرتا ہے کہ کیا یہ حقیر رقم اس کی جوانی لوٹا سکتی ہے، اس کے والدین واپس دے سکتی ہے اور اس کی پیشانی پر لگنے والے داغ کو مٹا سکتی ہے؟

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قومی انسانی حقوق کمشن نے ایک اخباری رپورٹ کی بنیاد پر ازخود کارروائی کی اور دہلی حکومت، وزارت داخلہ اور دہلی پولیس کو میرے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا حوالہ دیتے ہوئے پانچ لاکھ روپے کی مالی مدد کے لیے نوٹس دیا۔ یہ معاملہ چلتا رہا۔ دہلی پولیس اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ کمشن نے پھر 2017 میں ہدایت کا اعادہ کیا۔

محمد عامر نے مزید بتایا کہ دہلی پولیس نے 2018 میں اپنے ایک دفتر میں ان کو بلایا جہاں کئی بڑے افسران موجود تھے۔ ایک افسر نے ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر اظہار افسوس کیا اور کمشن کے حکم کی ہدایت کے مطابق پانچ لاکھ روپے دینے کی بات کہی۔ لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کوئی دستاویزی ثبوت دینے سے انکار کر دیا۔ البتہ ان کے بینک اکاونٹ میں پانچ لاکھ روپے ڈال دیے گئے۔ تاہم پولیس نے انہیں دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیجنے پر باضابطہ طور پر افسوس ظاہر نہیں کیا۔ ​

محمد عامر خان قومی انسانی حقوق کمشن کے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک آغاز قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردی کے کسی جھوٹے معاملے میں قومی انسانی حقوق کمشن نے کارروائی کی اور پہلی بار پولیس نے معاوضہ دیا یا مالی مدد کی۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ کیا پانچ کروڑ بھی ہوں تو وہ 14 سال واپس نہیں آ سکتے جو انہوں نے جیل میں گزارے ہیں۔ ہاں یہ رقم زخموں پر کسی حد تک مرہم ضرور لگاتی ہے۔

وہ اسے ایک نظیر بھی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے جیسے بہت سے بے گناہ ہیں جو جیلوں میں بند ہیں یا بہت سے بے قصور عدالتوں سے رہا ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد عامر خان بھارت کے حکمرانوں سے ایک سوال کرتے ہیں کہ جب ماؤنواز یا دوسرے شورش پسند ہتھیار ڈالتے ہیں اور مین اسٹریم میں آنا چاہتے ہیں تو حکومت ان کو بہت سی سہولتیں دیتی ہے۔ ان کے لیےباز آبادکاری کی ایک پالیسی موجود ہے۔ لیکن دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں برسوں تک جیلوں میں بند رہنے کے بعد جب بے قصور نوجوان عدالتوں سے بری ہوتے ہیں تو ان کی بازآبادکاری کے لیے کوئی پالیسی کیوں نہیں بنائی گئی۔ انہیں سہولتیں کیوں نہیں دی جاتیں۔

عامر خان اپنی آپ بیتی پیش کر رہے ہیں۔
عامر خان اپنی آپ بیتی پیش کر رہے ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیس اپنے اختیارات کا بےجا استعمال کرتی ہے اور ایک خاص فرقے کے لوگوں کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ بناتی ہے۔ لیکن ایسے پولیس والوں کے خلاف جو کہ بے قصوروں کو دہشت گرد بتا کر اٹھا لیتے ہیں، انہیں ٹارچر کرتے ہیں اور دسیوں بیسیوں برسوں تک جیل میں ڈال دیتے ہیں، کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ ان سے کوئی جواب کیوں نہیں طلب کیا جاتا۔

اب ذرا سا فلیش بیک میں چلتے ہیں۔ جال میں پھنسنے کی ان کی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ 1997 میں اپنی بہن سے ملنے کے لیے کراچی جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے پاکستانی ہائی کمشن میں ویزا کی درخواست دی اور انہیں ویزا مل گیا۔ آگے کی کہانی انہی کی زبانی۔

’ نومبر کا مہینہ تھا۔ مجھے میرے سفری دستاویزات مل گئے تھے۔ میں گھر لوٹنے کے لیے بس اسٹاپ کی طرف جا رہا تھا۔ جبھی ایک شخص سے ملاقات ہو ئی۔۔۔اس نے بتایا کہ اس کا نام گپتا جی ہے۔ اس نے مجھے تین مورتی پلینے ٹیریم کے نزدیک ایک کھوکھے پر لے جا کر کولڈ ڈرنک پلائی اور پوچھا کہ کیا میں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہوں گا۔ میں نے بلا سوچے سمجھے ہاں کہہ دیا۔ اس نے میرا پتا نوٹ کیا اور چند روز کے بعد رابطہ کرنے کا وعدہ کیا‘۔

چند روز کے بعد گپتا جی عامر کے گھر گئے او انہیں ان کا کام سمجھایا۔ 12 دسمبر 1997 کو عامر سمجھوتہ ایکسپریس سے کراچی گئے اور 11 فروری 1998 کو دہلی واپس آ گئے۔ لیکن انہیں جو کام سونپا گیا تھا وہ ان سے نہیں ہو سکا۔ کام اسی نوعیت کا تھا جیسا کہ جاسوسوں سے کرایا جاتا ہے۔

دہلی آکر انہوں نے سوچا کہ گپتا جی کو بتا دینا چاہیے کہ ان کا کام نہیں ہو سکا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ تھوڑا بہت ناراض ہوں گے۔ لیکن جب انہوں نے بتایا کہ وہ اپنا کام کرنے میں ناکام رہے تو وہ بری طرح برہم ہو گئے اور کہا کہ تم نے ملک کا زبردست نقصان کیا ہے۔ آئندہ کئی دنوں تک وہ اپنے غصے کا اظہار کرتے رہے۔

بہرحال 20 فروری 1997 کی شام کو ایک سنسان سڑک سے عامر کو اٹھا لیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ پھر ان کے ساتھ وہی سب کچھ ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے۔ غیر قانونی حراست میں رکھ کر مسلسل کئی روز تک ٹارچر کیا جاتا رہا۔ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ بارہ سال کی طویل قانونی لڑائی کے بعد تمام الزامات سے بری کیے گئے۔

وہ انسانی حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی اور بعض صحافیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ جب کسی کو دہشت گردی کےخود ساختہ الزام میں اٹھایا جاتا ہے تو میڈیا خوب رپورٹنگ کرتا ہے لیکن جب وہی شخص عدالت سے بری ہوتا ہے تو اس کی اس طرح رپورٹنگ نہیں کی جاتی۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ رویہ کب تک رہے گا؟

انہوں نے ایک کتاب FRAMED AS A TERRORIST لکھی ہے جو ان کی آپ بیتی ہے اور جس میں ٹارچر کے روح فرسا واقعات سمیت حکومت اور انتظامیہ کی قلعی کھولنے والی بہت کچھ تفصیلات موجود ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG