رسائی کے لنکس

پاکستانی معاشرے میں برداشت گھٹ رہی ہے


پاکستان میں بعض حلقے میڈیا سنسرشپ کی شکایت کررہے ہیں۔ رپورٹروں کی خبریں، تجزیہ نگاروں کے کالم اور اینکرپرسنز کے ٹاک شوز روکے جارہے ہیں۔ چند خاص معاملات پر بات کرنا منع ہے اور سوشل میڈیا کی نگرانی کی جارہی ہے۔ ان حالات میں ایڈیٹوریل کارٹونسٹ کیا سوچتے ہیں اور کیسے کام کررہے ہیں؟ وائس آف امریکا کے لیے مبشر علی زیدی نے چار بڑے کارٹونسٹس سے بات کی۔ یہاں جاوید اقبال سے گفتگو پیش کی جارہی ہے۔ فیکا کا انٹرویو کل ملاحظہ کیجیے۔

بشکریہ جنگ
بشکریہ جنگ

جاوید اقبال سے زیادہ شہرت پاکستان کے کسی کارٹونسٹ کو نہیں ملی۔ ان کے چاہنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ بڑے سیاست دان، کھلاڑی، فن کار، تمام مشاہیر ان کے پرستار ہیں۔ وہ پچاس سال سے زیادہ عرصے سے کام کررہے ہیں اور جنگ میں روزانہ ان کا کارٹون چھپتا ہے۔ وہ کئی رسالوں اور کتابوں کے لیے بھی بے شمار کارٹون بناچکے ہیں۔

آپ خود سوچتے ہیں یا اخبار کا ایڈیٹر آئیڈیا دیتا ہے؟ جاوید اقبال نے کہا کہ آج کل اخبارات میں ایڈیٹر کہاں ہوتے ہیں؟ مالک ہوتا ہے جسے باریکیاں معلوم نہیں ہوتیں۔ اسے صرف اتنا معلوم ہے کہ بات سمجھ میں نہ آئے تو کارٹون روک لو۔ زیادہ تو نہیں لیکن مہینے میں ایک دو کارٹون رک جاتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔

کارٹون کون رکواتا ہے؟ کیا حکومت کو پسند نہیں آتے؟ جاوید اقبال نے کہا کہ انھیں روزانہ کارٹون بناتے ہوئے باون سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران کئی حکومتیں بھگتائی ہیں۔ مارشل لا کے دور میں زیادہ سکون محسوس ہوتا تھا۔ تب کارٹون نہیں روکے جاتے تھے اور انھیں صفحہ اول پر چھاپا جاتا تھا۔ اب اقدار بدل گئی ہے اور کمرشل ازم آگیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے آنے کے بعد زندگی تیز محسوس ہوتی ہے۔

​​جاوید اقبال نے بتایا کہ وہ انگریزی اخبارات میں دوسرے کارٹونسٹس کا کام دیکھتے رہتے ہیں۔ ظہور ان کے پسندیدہ کارٹونسٹ ہیں لیکن صابر نذر اور خالد حسین بھی بہت اچھے ہیں۔ انھیں اکثر ایسا لگتا ہے کہ دوسرے کارٹونسٹ ان سے بہتر کام کررہے ہیں۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی اردو میڈیا کے لیے اور ہے، انگریزی میڈیا کے لیے اور۔ انگریزی اخبار کی رسائی زیادہ لوگوں تک نہیں۔ انگریزی پڑھنے والوں میں برداشت بھی ہوتی ہے۔ اردو میڈیا پر دباؤ زیادہ ہے اور اخبار کی انتظامیہ سوچتی ہے کہ جس کا کارٹون چھپ رہا ہے، وہ ناراض نہ ہوجائے۔

جاوید اقبال نے کہا کہ وہ محتاط ہو کر کارٹون بناتے ہیں۔ کارٹونسٹ کو مردم بیزار ہونا چاہیے اور زیادہ لوگوں سے ملنا نہیں چاہیے تاکہ وہ کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکے۔ لیکن جاوید اقبال خود بہت لوگوں سے ملتے جلتے ہیں اور تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے کارٹونوں میں مثبت پہلو اجاگر کرنا شروع کیا۔ لوگ ان کا بنایا ہوا کارٹون دیکھ کر لوگ خفا ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں۔

بشکریہ جنگ
بشکریہ جنگ

اپنے پرستاروں سے بہت محبت ملنے کے باوجود جاوید اقبال کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں برداشت کم ہو رہی ہے اور منفی سوچ بڑھ گئی ہے۔ کسی کی اچھی بات کی تحسین نہیں کی جاتی۔

جاوید اقبال 1980 کی دہائی میں ٹیلی وژن پر سب کے سامنے قلم برداشتہ کارٹون بنا کر دکھاتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اب بھی اسی طرح کارٹون بناتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG