رسائی کے لنکس

بھارتی صحافی کی افغانستان میں ہلاکت، اہلِ خانہ کا طالبان کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے وابستہ بھارت کے صحافی دانش صدیقی کے والدین نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کیا ہے اور دانش صدیقی کی ہلاکت کے سلسلے میں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے بعض رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

صحافت کا معتبر ’پلٹزر‘ ایوارڈ لینے والے 38 سالہ دانش صدیقی گزشتہ سال 16 جولائی کو اس وقت کی افغانستان کی سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپ کے دوران ہلاک ہوئے تھے جب وہ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے لیے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے واقعات کی کوریج کر رہے تھے۔

جس وقت دانش صدیقی کی ہلاکت ہوئی وہ طالبان کے خلاف جنگ کرنے والے افغان کمانڈو دستے کے ساتھ تھے۔

اس وقت میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں طالبان نے انتہائی بے رحمی کے ساتھ ہلاک کیا تھا۔

دانش صدیقی کے اہلِ خانہ نے نئی دہلی میں ایک ورچوئل پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ ہلاکت کا یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ ان کے بقول عام شہریوں اور صحافیوں کی ہلاکت طالبان کے ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی پالیسی میں شامل ہے۔

دانش صدیقی کے والدین اختر صدیقی اور شاہدہ اختر نے کہا کہ وہ عالمی عدالت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان کے بیٹے کی ہلاکت کی تحقیقات کرے اور طالبان کے اعلیٰ سطح کے کمانڈرز اور رہنماؤں سمیت تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

ان کے مطابق دانش صدیقی کی ہلاکت ایک قتل ہی نہیں بلکہ جنگی جرم بھی ہے۔

دانش صدیقی کے والدین کی جانب سے ایڈووکیٹ اَوی سنگھ نے کہا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالتِ جرائم سے اپیل کی ہے کہ دانش صدیقی کی ہلاکت کی تحقیقات کی جائے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ دانش صدیقی کو ہدف بنا کر نشانہ بنایا گیا اور انہیں اذیت دی بھی گئی جس کے بعد ان کی موت واقع ہوئی۔

ان کے مطابق عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ طالبان کمانڈروں اور ان کے مقامی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اگر ضروری ہو تو ان کے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے جائیں۔

پٹیشن میں طالبان کے سپریم کمانڈر ملا ہبت اللہ اخوند زادہ، طالبان کی شوریٰ کے سربراہ اور طالبان کے موجودہ وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند، قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور ترجمان ملا عبد الغنی برادر، طالبان کے وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد، قندھار صوبے کے گورنر گل آغا شیرازی، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور مقامی کمانڈرز کے نام درج کیے گئے ہیں۔

ایڈووکیٹ اوی سنگھ نے کہا کہ یہ ایک طویل عمل ہے۔ افغانستان میں اس واقعے کی تحقیقات ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو جواب دہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

دانش صدیقی کی والدین نے کہا کہ اب ان کا بیٹا تو واپس نہیں آ سکتا البتہ اگر ان کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو ان کی اذیت ضرور کچھ کم ہو جائے گی۔

پٹیشن میں امریکہ کے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ اور دیگر میڈیا اداروں کی رپورٹس شامل کی گئی ہیں جن میں طالبان پر دانش صدیقی کی ہلاکت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ابتدائی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ جب طالبان افغانستان کے اسپن بولدک ضلع پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو کراس فائرنگ میں دانش صدیقی کی موت ہوئی تھی۔

تاہم ’رائٹرز‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق طالبان کے حملے کے دوران جب افغانستان کی اس وقت کی اسپیشل فورسز کے اہل کار پیچھے ہٹنے لگے تو دانش صدیقی دو جوانوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے تھے۔

افغانستان میں خاتون صحافی کو کام سے کس نے روکا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:54 0:00

رائٹرز کے مطابق بیلسٹک میزائل کے ایک ماہر نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ہلاک ہونے کے بعد بھی دانش صدیقی کو کئی بار گولیاں ماری گئی تھیں۔

اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان کے قبضے میں دانش صدیقی کی لاش کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں ایک نامعلوم بھارتی اہل کار کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ دانش صدیقی کی لاش پر فائرنگ سے ایک درجن زخم آئے تھے اور ان کے چہرے اور سینے پر ٹائر کے نشانات تھے۔

معروف قانون دان خواجہ عبد المنتقم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بین الاقوامی عدالتِ جرائم انفرادی شخص کے خلاف کارروائی کرتی ہے کسی گروپ کے خلاف نہیں۔ طالبان ایک گروپ ہے۔ ممکن ہے کہ اس گروپ کے خلاف کارروائی کا کوئی پہلو نکلتا ہو اور اسی وجہ سے بین الاقوامی عدالتِ جرائم سے رجوع کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بھی شخص جرم کرتا ہے اور وہ جرم بین الاقوامی عدالتِ جرائم کے تحت آتا ہے تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے اور عدالت کارروائی بھی کرتی ہے۔ مذکورہ عدالت کے دائرہٴ اختیار میں توسیع کی گئی ہے اور اب کہیں بھی جرم ہو اور ملزم کہیں بھی ہو تو اس کے خلاف بین الاقوامی عدالت جرائم سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عدالت کے روبرو پیش کیے جانے والے معاملات کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کسی بھی انفرادی شخص کے خلاف تحقیقات کر سکتی ہے اور اس کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر سکتی ہے۔ اس کے تحت جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی جیسے معاملات آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت کی ذمہ داریوں میں جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور دوبارہ ایسے واقعات کو روکنا شامل ہے۔

جنوبی ایشیا میں صحافیوں کو درپیش خطرات
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:53 0:00

واضح رہے کہ طالبان نے دانش صدیقی کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی تردید کی تھی۔ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے نئی دہلی کے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا قتل طالبان کے جنگجوؤں نے کیا۔

سہیل شاہین نے کہا تھا کہ صحافیوں کو متعدد بار آگاہ کیا گیا تھا کہ جب وہ افغانستان آئیں تو طالبان سے رابطہ کریں۔ طالبان ان کو سیکیورٹی فراہم کریں گے۔

دانش صدیقی کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ طالبان سے رابطہ قائم کرنے کے بجائے وہ کابل کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ رہے۔ وہاں امتیاز نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ کابل کے سیکیورٹی اہل کار ہیں، یا ملیشیا کے رکن ہیں یا پھر کوئی صحافی۔ وہ کراس فائرنگ میں نشانہ بنے لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ کس کی فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے۔

بعض رپورٹس کے مطابق دانش صدیقی کو گرفتار کر لیا گیا تھا بعد ازاں انہیں قتل کیا گیا اور ان کی لاش مسخ کر دی گئی۔

طالبان کے ترجمان نے لاش مسخ کرنے کے الزام کی تردید کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کی پالیسی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کابل کی سیکیورٹی فورسز نے طالبان کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کیا ہو۔ لاش مسخ کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG