رسائی کے لنکس

کراچی: بھرپور کارروائی پر بڑی سیاسی جماعتیں منقسم


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتیں قیام امن کے لیے کراچی میں بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے پر تو آمادہ ہیں لیکن اس کے طریقہ کار کے بارے ان کے مابین واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔

پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں بدامنی کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضح ہدایات کے باوجود شہر میں پر تشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے اور ان حالات میں مختلف حلقے بشمول سیاسی جماعتیں حکومت سے ذمہ داران کے خلاف ایک بھرپور کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

رواں ہفتے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں کراچی کے حالات موضوع بحث رہے اور سیاسی جماعتوں نے قیام امن کے لیے شہر میں بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے پر تو آمادگی ظاہر کی لیکن اس کے طریقہ کار کے بارے ان کے مابین واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کا منظر (فائل فوٹو)
قومی اسمبلی کے اجلاس کا منظر (فائل فوٹو)

کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنماء رضا ہارون کہتے ہیں کہ شہر میں کارروائی کا کوئی بھی شخص متحمل نہیں ہو سکتا تاہم قیام امن کے لیے ریاست کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔

’’کراچی میں اس وقت نا سیاسی کشمکش ہے، نا کوئی سیاسی ایشو ہے یہ انتہا پسند ہیں، دہشت گرد ہیں، طالبان ہیں، گینگ وار کے لوگ ہیں، لینڈ مافیا اور جرائم پیشہ گروہوں کے لوگ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہاں ضرورت ہے ریاست کی عمل داری کی۔ ریاست کی اولین آئینی و قانونی ذمہ داری ہے عام آدمی کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا اور اس کو یقینی بنانا ہے۔‘‘

لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن ان کے بقول اگر تمام سیاسی قوتیں مل کر فیصلہ کریں تو قیام امن کے لیے کارروائی پولیس اور رینجرز فورس کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے۔

’’ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ بیماری ہے اور اس کا علاج کرنا ہے۔ ہم نے تو (فوجی آپریشن کی) تجویز دی تھی، لیکن کچھ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ ہمیں تو اس سے غرض ہے کہ بیماری کو کیسے ختم کیا جائے یہ تو ان پر ہے کہ جس طریقے سے وہ ختم کر سکتے ہیں۔‘‘

حکمران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کہتے ہیں کہ جب ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو پھر کراچی میں ایسا کرنے پر اعتراض درست نہیں۔

’’میں اے این پی کی اس بات سے (اتفاق) کرتا ہوں کہ اگر وزیرستان، خیبر پختونخوا یا مالاکنڈ میں آپریشن ہو گا تو کراچی میں سب سے پہلے ہو گا، چاہے وہ لاہور یا کراچی ہو، اس میں یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ آپ آپریشن نا کریں۔‘‘

لیکن اپوزیشن مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی عبد القادر بلوچ کا کہنا ہے کہ کراچی کا ملک کے قبائلی علاقوں سے موازانہ کرنا کسی طور دانشمندی نہیں ہے۔

’’جنوبی وزیرستان اور سوات کا کراچی سے موزانہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کراچی ان علاقوں سے مختلف ہے (اگر آپریشن کیا گیا تو) ایک فساد پیدا ہو گا، ایک فتنہ پیدا ہو گا، یہ ایک نا ممکن سی بات ہو جائے گی اور ملک دشمن قسم کی کارروائی کی جائے گی۔ مختلف علاقوں (میں کارروائی) کے لیے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں، تمام جماعتوں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔‘‘

ملک کی تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان کا ماننا ہے کہ کراچی میں بدامنی کا اثر صرف اس شہر میں بسنے والوں پر ہی نہیں بلکہ پورے ملک پر ہوتا ہے کیونکہ یہ ناصرف قومی معیشت کی شہ رگ ہے بلکہ روزگار کے حصول کے لیے پاکستان کے دوسرے حصوں سے بھی لوگ اسی شہر کا رخ کرتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG