رسائی کے لنکس

کشمیریوں نے پابندیوں میں رہنا سیکھ لیا


سری نگر کے مرکز میں ہر اتوار کو سجنے والا اتوار بازار اب صر ف اتوار تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ بازار ہر روز کھلتا ہے۔ پہلے اتوار بازار میں فر کے کمبل، خواتین کے پرس، کھیل کے جوتے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ملتی تھیں، مگر اب روزانہ کے اس بازار میں روزمرہ ضرورت کی تقریباً تمام ہی چیزیں دستیاب ہیں۔

یہ تبدیلی 5 اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی اور ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور وادی کشمیر میں طویل لاک ڈاؤن کے بعد آئی ہے، جب سے زیادہ تر بازار، مارکیٹیں اور کاروباری مراکز تقریباً بند پڑے ہیں۔

سری نگر کا کھلے آسمان تلے سجنے والا بازار
سری نگر کا کھلے آسمان تلے سجنے والا بازار

ہر روز سجنے والے اس بازار میں دودھ، دہی، گوشت، سبزی اور پھلوں سے لے کر سلے سلائی کپڑے تک مل جاتے ہیں۔ سڑک کے کنارے کھلے آسمان تلے یہ بازار صبح 6 بجے شروع ہوتا ہے اور تین گھنٹے کے بعد 9 بجے بند ہو جاتا ہے۔ اس بازار کی دوسری شفٹ شام چھ بجے لگتی ہے اور رات 9 بجے ختم ہو جاتی ہے۔ جو لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں کسی وجہ سے صبح خرید نہیں پاتے، وہ شام کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

البتہ پیر کے دن عارضی بازار کے اوقات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ صبح 9 کی بجائے 11 بجے بند ہوتا ہے اور شام کو 6 بجے کی بجائے دو گھنٹے پہلے ہی 4 بجے دوبارہ کھل جاتا ہے۔

فٹ پاتھ پر لگنے والے بازار میں کپڑوں کا ایک اسٹال
فٹ پاتھ پر لگنے والے بازار میں کپڑوں کا ایک اسٹال

کھلے آسمان تلے لگنے والے اس بازار میں خوب رونق اور چہل پہل دکھائی دیتی ہے جب کہ شہر کی بڑی مارکیٹیں، تجارتی مراکز اور بازار مسلسل بند چلے آ رہے ہیں۔

اب اس عارضی بازار میں کباب بھی تلے جا رہے ہیں۔ مچھلی بھی فروخت ہو رہی ہے، دوائیاں بیچنے والے بھی یہاں آ گئے ہیں۔ گلی کوچوں میں ٹھیلے لگانے والوں نے بھی یہاں اپنے لیے جگہ ڈھونڈ لی ہے۔ گویا ہر وہ چیز، جس کی ضرورت پڑ سکتی ہے، وہ یہاں مل جاتی ہے۔ یہ سری نگر کی زندگی کا ایک نیا انداز ہے جو اس سے پہلے شاہد کبھی کسی نے نہیں دیکھا ہو گا۔

سری نگر کے شہریوی کا دفاعی ہتھیار، ٹوٹی ہوئی اینٹیں اور کنکر
سری نگر کے شہریوی کا دفاعی ہتھیار، ٹوٹی ہوئی اینٹیں اور کنکر

ٹائمز آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں 5 اگست کے بعد کے سری نگر کا جائزہ لیا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ یہ اطلاعات موجود ہیں کہ عسکریت پسند گروپس کے کارکن بڑی مارکیٹس کو کھلنے سے روک رہے ہیں۔ وہ خاموشی سے دکانداروں کے پاس جاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ وہ اپنی دکانوں کے دروازے بند رکھیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک دکان پر، جس کا آدھا شٹر کھلا ہوا تھا، اس پر تیزاب پھینک دیا تھا۔ ایک اور واقعہ میں عسکریت پسندوں نے ایک 65 سالہ دکاندار کو دکان کھولنے پر ہلاک کر دیا۔ لیکن دوسری جانب بڑی مارکیٹوں کے کئی تاجروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کاروبار کسی خوف سے نہیں بلکہ کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے حالیہ اقدامات کے خلاف احتجاج میں بند رکھے ہوئے ہیں۔

ایک تاجر کا جس نے اپنا نام بتانے سے گریز کیا اور جس کی سری نگر کی ایک مہنگی مارکیٹ میں بڑا شو روم ہے، کہنا ہے کہ کھلے آسمان کے نیچے لگنے والا بازار صارفین کے ساتھ ساتھ کاروباری لوگوں کے لیے بھی بڑی نعمت ہے۔ ہم ٹھیلوں پر اپنا سامان وہاں پہنچا دیتے ہیں اور ہمارے گاہک بھی وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اب زندگی کی گاڑی نئے انداز سے چلنا شروع ہو گئی ہے۔

چھوٹے دکانداروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کے حالات سے بڑے تاجروں اور امیروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے شو روم بند رکھ کر بھی مدتوں گزارہ کر سکتے ہیں۔ امرا خریداری کے لیے دوسرے شہروں میں جا سکتے ہیں۔ مسئلہ چھوٹے تاجروں اور غریبوں کا ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، انہیں یہیں رہنا ہے اور اپنے جینے کا راستہ نکالنا ہے۔

پابندیوں کے باعث سیبوں کی زیادہ تر فصل باہر کی منڈیوں میں نہیں بھیجی جا رہی
پابندیوں کے باعث سیبوں کی زیادہ تر فصل باہر کی منڈیوں میں نہیں بھیجی جا رہی

سبزی کے ایک ٹھیلے والے ترازو میں تازہ کشمیری سیب ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا، لاک ڈاؤن چھ مہینے چلے یا چھ سال، کشمیری مشکلیں برداشت کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب سرکاری عہدے داروں کو توقع ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد، جس میں نریندر مودی اور عمران خان بھی شرکت کر رہے ہیں، بہتری کی کوئی صورت نکل آئے گی۔

XS
SM
MD
LG