رسائی کے لنکس

مظفر آباد کی کبریٰ گیلانی کی درد بھری کہانی


مظفرآباد کی کبریٰ گیلانی جو بھارتی کشمیر سے وطن واپسی کی کوشیں کر رہی ہے۔
مظفرآباد کی کبریٰ گیلانی جو بھارتی کشمیر سے وطن واپسی کی کوشیں کر رہی ہے۔

مظفر آباد کی تحصیل دومیل کی رہنے والی کبریٰ گیلانی بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ایک نوجوان محمد الطاف راتھر کے ساتھ 25 مارچ 2010 کو رشتہء ازدواج میں بندھ گئی تھیں۔ لیکن جیسا کہ کبریٰ گیلانی کا کہنا ہے شادی کے آٹھ سال بعد بھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے شوہر نے انہیں 30 نومبر 2018 کو طلاق دے دی۔ وہ اب واپس پاکستان جانا چاہتی ہیں لیکن انہیں بھارتی حکام کی طرف سے اس کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔

سرینگر میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر بشیر خان نے کہا کہ وہ معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں اور اگر مناسب سمجھا گیا تو ریاستی حکومت نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ سے رابطہ قائم کر کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کبریٰ گیلانی کی حتی الامکان مدد کرنے کی کوشش کرے گی۔

نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمشن کے عہدیداروں نے بھی کبریٰ گیلانی کو بھرپور مدد کی یقین دہائی کراتے ہوئے اُن سے کہا ہے کہ وہ یہ معاملہ بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ساتھ اُٹھا رہے ہیں۔

کبرٰی گیلانی کے پاسپورٹ کی معیاد چونکہ پوری ہو رہی تھی اس لئے پاکستان ہائی کمشن نے انہیں ایک سال کی مدت کا نیا پاسپورٹ بھی جاری کیا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے انصار برنی بھی کبریٰ گیلانی کو واپس لانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن 27 سالہ کبریٰ گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاحال بھارتی حکومت نے اُن سے رابطہ قائم کیا ہے اور نہ ریاستی حکومت کے کسی نمائندے نے انہیں براہِ راست کسی قسم کی یقین دہانی کرائی ہے۔

​انہوں نے کہا کہ شوہر کی طرف سے طلاق دیئے جانے کے بعد اُن کے پاس رہنے کی کوئی جگہ ہے اور نہ کھانے پینے کا کوئی موزوں انتظام۔ اب وہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے مٹن علاقے میں ایک "ہمدرد کشمیری" کے ہاں بسر اوقات کر رہی ہیں۔

کبریٰ گیلانی کی محمد الطاف راتھر کے ساتھ پہلی ملاقات پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کوئی 9 برس پہلے ہوئی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد دونوں میں شادی ہو گئی۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ککر ناگ علاقے کے پنزگام گاؤں کے رہنے والے محمد الطاف راتھر اُن کشمیری نوجوانوں میں شامل تھے جو 1990 کی دہائی میں مبینہ طور پر ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرنے کے لئے حد بندی لائن پار کر کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر چلے گئے تھے۔ پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں طویل عرصے تک قیام کے دوران ان میں سے کئی ایک نے شادیاں کیں اور ان کے بچے بھی ہوئے۔

ان "بھٹکے ہوئے نوجوانوں" کی وطن واپسی اور دوبارہ آباد کاری کے لئے حکومت بھارت نے جب 2010 میں ایک خصوصی پالیسی کا اعلان کیا تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں "در ماندہ" ایسے 1085 افراد نے درخواستیں دیں جو واپس بھارتی زیرِ انتظام کشمیر آنا چاہتے تھے۔ تاہم جانچ پڑتال کے بعد حکومت بھارت نے ان میں سے صرف 219 درخواستیں منظور کر کے درخواست دہندگان کو نیپال اور دوسرے راستوں سے گھر لوٹنے کی اجازت دے دی۔

کبریٰ گیلانی
کبریٰ گیلانی

بالآخر 2010 اور 2012 کے دروان 212 ایسے افراد واپس بھارتی زیرِ انتظام کشمیر لوٹے۔ ان میں سے 90 کے قریب افراد کے ساتھ ان کی بیویاں اور بچے بھی تھے۔ ان ہی میں محمد الطاف راتھر اور کبریٰ گیلانی بھی شامل ہیں۔

محمد الطاف راتھر کا کہنا ہے کہ وادئ کشمیر پہنچنے پر اُن کی اہلیہ نے ریاستی باشندہ ہونے کی سند جو اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفیکیٹ کہلاتی ہے، حاصل کرنے کی بڑی کوشش کی تاکہ اس کی مدد سے انہیں بھارتی پاسپورٹ مل جائے اور وہ آسانی کے ساتھ پاکستان آ جا سکیں۔ لیکن انہیں یہ سند جاری کی گئی اور نہ سفری دستاویزات۔ انہوں نے کہا "وطن واپسی اور یہاں ہماری دوبارہ آباد کاری کے سلسلے میں ہم سے جو وعدے کئے گئے تھے وہ سب سراب ثابت ہوئے اور اسی وعدہ خلافی کی شکار میری اہلیہ بھی بن گئیں"۔

کبریٰ گیلانی نے کہا کہ ان کی طلاق اور دوری کے رنج میں گزشتہ ماہ ان کے والد سید لطیف حسین شاہ گیلانی انتقال کر گئے جبکہ اس سے پہلے اُن کی ایک بہن کئی ماہ تک بیمار رہنے کے بعد چل بسی تھیں۔ اور اب اُن کی والدہ، دو چھوٹے بھائی اور ایک اور بہن کبریٰ گیلانی کی جدائی کے غم میں بے حال ہیں۔ انہوں نے کہا " وہ وہاں تڑپ رہے ہیں اور میں یہاں"۔

کبریٰ گیلانی نے واہگہ-اٹاری کے راستے پاکستان لوٹنے کی دو بار کوشش کی مگر ناکام رہیں حالانکہ اُن کے پاس سفری دستاویزات بھی تھیں۔ "سرحد پر بھارتی امیگریشن حکام نے بتایا کہ وہ مجھے پاکستان داخل ہونے کی اجازت اُوپر سے آرڈر ملنے کی صورت میں ہی دے سکتے ہیں۔ میں اُس دن کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار کر رہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میری فریاد سن لے گا۔ مجھے اس کا پورا بھروسہ ہے۔ میں ہر حال میں پاکستان لوٹنا چاہتی ہوں"۔

کبریٰ گیلانی کے سابق شوہر نے دعویٰ کیا کہ وہ انہیں طلاق نہیں دینا چاہتے تھے لیکن کسی نے کبریٰ گیلانی کو مشورہ دیا تھا کہ ان کے سامنے پاکستان لوٹنے کا اگر کوئی راستہ ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ شوہر سے علیحدگی کو بنیاد بنا کر متعلقہ بھارتی حکام کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن کبریٰ گیلانی نے اس دعوے کو رد کیا اور کہا "وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے صرف اس لئے طلاق دی کیونکہ میں ماں نہیں بن سکی"۔

کبریٰ گیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی کئی اور خواتین بھی جو 'وطن واپسی اور دوبارہ آباد کاری پالیسی' کے تحت اپنے شوہروں کے ہمراہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر آئی تھیں یہاں کسمپرسی کی حالت میں بسر اوقات کر رہی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک سائرہ بیگم نے اپریل 2014 میں اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا "ہم ادھر کی رہیں اور نہ اُدھر کی۔ اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ ہم بلا کسی رکاوٹ کے دونوں ملکوں کے درمیان سفر کر سکتی ہیں۔ لیکن جب ہم یہاں پہنچیں تو ہمیں اسٹیکٹ سبجکٹ سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا اور نہ پاسپورٹ۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس شناختی کارڑ بھی نہیں ہیں۔ ہم نے یہاں آ کر اپنی شناخت کھو دی ہے"-

-----------------------------------------------------------------------------------------------

وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ ترین خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔

ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اینڈرائڈ فون کے لیے: https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en

آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے: https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG