رسائی کے لنکس

زمین کا سب سے گہرا سوراخ، جہاں سے خوفناک آوازیں نکلتی ہیں


کولا سپرڈیپ بور ہول
کولا سپرڈیپ بور ہول

زمین میں کیے جانے والے سب سے گہرے سوراخ کو سائنس دانوں نے بند کر دیا تھا، لیکن اس مقام سے خوف ناک اور دل دہلا دینے والی چیخوں کی آوازں کی ریکارڈنگ آج بھی خوفزدہ کر دیتی ہے۔ اس مقام کے قریب رہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ آوازیں دوزخ سے آتی ہیں اور یہ سوراخ زمین اور جہنم کے درمیان ایک راستہ ہے۔ تاہم سائنس اسے تسلیم نہیں کرتی۔

سائنس دان اور انجینئرز بڑی بڑی مشینوں سے زمین میں گہرے گہرے سوراخ کرتے ہیں جن کا مقصد عموماً تیل، گیس یا معدنیات کی تلاش ہوتا ہے۔ ان سوراخوں کی گہرائی عموماً میلوں میں ہوتی ہے۔

لیکن زمین میں کیا جانے والا سب سے گہرا سوراخ خالص سائنسی تحقیق کے لیے تھا۔ مگر ایک خاص گہرائی پر پہنچنے کے بعد ڈرل مشینوں نے مزید نیچے جانے سے اپنی بے بسی ظاہر کر دی تھی اور کھدائی کا کام بند کرنا پڑا تھا۔

زمین میں دنیا کا سب سے گہرا سوراخ روس میں ہے جسے' کولا سپر ڈیپ بور ہول' کہا جاتا ہے۔ یہ ناروے کی سرحد کے قریب روسی علاقے مورمانسک میں واقع ہے۔

اگرچہ یہ سوراخ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے لیکن اس کے اندر سے چیخوں جیسی خوف ناک آوازوں کی وجہ سے یہ جگہ سیاحت کا ایک مرکز بن گئی ہے۔ لوگ یہاں آ کر اس اجڑے اور غیر آباد مقام کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں جہاں لگ بھگ 20 سال تک زمین کے اندر کھدائی ہوتی رہی۔

پھر اس سوراخ سے اچانک چیخوں کی دل دہلا دینے والی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں، جن کی ریکارڈنگ آپ کو یو ٹیوب پر مل سکتی ہے۔ ان آوازوں کے متعلق علاقے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سوراخ زمین سے دوزخ میں جانے کا راستہ ہے۔

تاہم یہ سوراخ اتنا بڑا نہیں کہ انسان اس میں اتر سکے۔ سوراخ کا دہانہ صرف نو انچ ہے۔ اگر اسے سیل نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص اس کے اندر گر سکے۔

کولا سپر ڈیپ بورہول کی گہرائی تقریباً ساڑھے سات میل ہے، یعنی سوا بارہ کلومیٹر کے لگ بھگ۔ زمین کے اندر اتنی گہرائی تک پہنچنے میں سائنس دانوں اور انجینئرز کو 20 سال کا عرصہ لگا، کیونکہ اس مقام پر زمین کے نیچے کی تہیں چٹانی تھیں، جن میں سوراخ کرنا آسان نہیں تھا۔

یہ ایک خالص سائنسی پراجیکٹ تھا۔ اس مقام پر سائنس دان تیل یا کوئی قیمتی دھات تلاش نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ زمین کے اندر کی ساخت کیسی ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ایک جلتا ہوا گولہ جانداروں کے رہنے کے قابل ایک سیارہ کیسے بنا۔

اپنے اس پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے سائنس دان تقریباً 9 میل نیچے جا کر چٹانوں کے نمونے اکھٹے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔

جب ڈرل مشین کا نوکیلا برما ساڑھے سات میل کی گہرائی میں واقع چٹان سے ٹکرایا تو انجنیئرز کو محسوس ہوا کہ اب مزید نیچے جانا ممکن نہیں رہا۔ اس گہرائی میں موجود چٹانیں تقریباً پونے تین ارب سال پہلے کی حالت میں تھیں۔ اس مقام کا درجہ حرارت 356 ڈگری فارن ہائٹ تھا۔ جو سائنس دانوں کے اندازے سے تقریباً دگنا تھا۔

اتنے زیادہ درجۂ حرارت پر مزید کھدائی کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں رہا تھا کہ اسٹیل کے پائپ اور برمے کی نوک ٹیڑھی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس درجۂ حرارت پر زیرِ زمین چٹانیں بھی چٹان جیسی نہیں رہی تھیں بلکہ پراجیکٹ کے سائنس دانوں کے بقول ان کا طرزِ عمل پلاسٹک جیسا ہو گیا تھا۔

یہ ذکر ہے 1992 کا جب سائنس دانوں نے 20 سال سے جاری کرہ ارض کی تحقیق سے متعلق اس پراجیکٹ کو ختم کر کے اس مقام کو سیل کر دیا۔ اگرچہ اس کے بعد تیل نکالنے کے لیے قطر کے الشاہین آئل فیلڈ میں 12 کلومیٹر سے زیادہ کی کھدائی کی گئی ہے۔

لیکن اس کے باوجود ابھی تک کسی اور جگہ کی کھدائی کولا سپر ڈیپ بور ہول کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکی اور اسے آج بھی زمین کے سب سے گہرے سوراخ کا درجہ حاصل ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG