رسائی کے لنکس

لاہور کا نوجوان ووٹر کیا سوچ رہا ہے؟


​​2013ء کے الیکشن میں لاہور کے نوجوان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف میں بٹے ہوئے تھے مگر سرویز بتاتے ہیں کہ اس سال پاکستان تحریکِ انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کے مستقبل کا فیصلہ اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور پاکستان میں ہونے والے 2018ء کے الیکشن کو بھی نوجوانوں کا الیکشن کہا جا رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق نو کروڑ 70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 44 فیصد نوجوان ہیں۔ ان نوجوان ووٹرز کی بڑی تعداد اس بار بڑھ چڑھ کر انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہے۔

ان نوجوانوں میں سے 15 فی صد 18 سے 25 سال کی عمر کے ہیں جب کہ 29 فی صد 26 سے 35 سال کے ہیں۔

گیلپ سروے کے مطابق اس سال 27 فی صد نیا نوجوان ووٹر پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دینے کا سوچ رہا ہے جب کہ 22 فی صد مسلم لیگ (ن) کو۔

انتخابی عمل میں ان نوجوانوں کی شمولیت بہت اہم ہے۔ خاص طور پر پنجاب کے نوجوانوں کی جن میں الیکشن سے قبل خوب جوش اور جذبہ ہے۔ لاہور میں جو کہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اس بار بھی 2013ء کی طرح دونوں بڑی جماعتوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے جس میں نوجوان اہم کردار ادا کریں گے۔

2013ء کے الیکشن میں لاہور کے نوجوان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف میں بٹے ہوئے تھے مگر سرویز بتاتے ہیں کہ اس سال پاکستان تحریکِ انصاف کا پلڑا نسبتاً بھاری ہے۔

ضلع لاہور قومی اسمبلی کے 14 حلقوں میں تقسیم ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سے حلقوں سے نوجوان کن جماعتوں کو جتواتے ہیں۔

'انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ آلٹرنیٹو' کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور قوتِ خرید ہے۔ یہ رپورٹ این اے 121، این اے 122 اور این اے 124 کے سروے کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق اگر سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں گی تو پھر ان کا اعتماد جیت سکتی ہیں۔

این اے 133 کے رہائشی عمار اظہر کہتے ہیں، "پاکستان تحریکِ انصاف نوجوانوں کی آواز ہے اور چوں کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو آزما لیا ہے اس لیے اس بار نئی قیادت کو موقع دینا چاہیے۔"

این اے 129 کی ووٹر اسمارہ علی کہتی ہیں کہ "اس بار یہ میرا پہلا ووٹ ہو گا اور میں تبدیلی کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دوں گی۔ انہوں نے اپنے منشور میں خواتین کے حقوق پر بات کی ہے۔ اس لیے میں بہت پرعزم ہوں۔ مگر پہلی بار ووٹ دینے کی مؤثر تربیت ہونی چاہیے۔"

این اے 127 جو کہ مسلم لیگ (ن) کا حلقہ سمجھا جاتا ہے وہاں مریم نواز کے نااہل ہونے پر علی پرویز ملک ن لیگ کی طرف سے انتخاب لڑیں گے۔ ان کے مدِ مقابل پاکستان تحریکِ انصاف کے جمشید اقبال ہوں گے۔ اس حلقے کے نوجوان مریم نواز کی نااہلی کے بعد شش و پنج میں مبتلا نظر آئے۔

این اے 126 کے طالبِ علم مدثر کا کہنا تھا، "ہم اپنے علاقے میں مسلم لیگ (ن) کو ہی جتوائیں گے کیوں کہ انہوں نے میٹرو اور اورنج ٹرین بنائی ہے۔"

لاہور کے نوجوان سیاسی مہم اور جلسوں جلوسوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ مگر ان نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر مہم بھی اب تیز ہو رہی ہے۔

این اے 151 کے رہائشی ایک طالبِ علم محمد اسلم کہتے ہیں، "میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دوں گا کیوں کہ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں کام کیے ہیں۔ میں سوشل میڈیا ہر مسلم لیگ ن کی مہم چلاتا ہوں اور لوگوں کو انہیں ووٹ دینے کا کہتا ہوں۔"

حلقہ پی پی 151 کے حافظ سلطان کہتے ہیں کہ "ہم گھر گھر جا کے لوگوں کو بتا رہے ہیں اور انتخابی مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم مسلم لیگ ن کو ہی جتوائیں گے۔"

اس کے علاوہ این اے 126 کے طالبِ علم عثمان اشرف کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے لیپ ٹاپ اسکیم دی اور مسلم لیگ (ن) ہی ملک کو آگے لے کے چلے گی۔"

البتہ این اے 133 جو پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا حلقہ ہے، تبدیلی چاہتا ہے اور یہاں کے نوجوان اپنے کپتان کی جیت کے لیے دن رات مہم چلا رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق آج کل کے نوجوان جو کہ نہ صرف گھر گھر جا کر بلکہ سوشل میڈیا پر بھی بہت کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، اس سال ہونے والے انتخابات پر بہت زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG