رسائی کے لنکس

پاکستان الیکشن: پنجاب کے وہ حلقے جہاں ٹکر کے مقابلے متوقع ہیں


پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) انتخابی عمل سے باہر ہے، لیکن اس کے باوجود پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار بعض حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے لیے بڑا خطرہ سمجھے جا رہے ہیں۔

ایسے میں لاہور، سیالکوٹ، گجرات اور وسطی پنجاب کے بعض حلقوں میں زور کا جوڑ پڑنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کا الزام ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود اُن کے اُمیدوار بھرپور مقابلہ کریں گے۔

بعض حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما بھی ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی اُمیدوار کے خلاف ہی میدان میں اُتر رہے ہیں جس کی وجہ سے وسطی پنجاب میں سیاسی منظرنامہ دلچسپ ہو گیا ہے۔

لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 117 میں استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے صدر عبدالعلیم خان کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین کے بیٹوں کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نے اپنا اُمیدوار کھڑا نہیں کیا جس پر لیگی حلقوں میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ وسطی پنجاب میں کن کن حلقوں میں ماہرین سخت مقابلے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں اور وہاں کون کس کے مدِمقابل ہے؟

این اے 127، لاہور: بلاول بھٹو بمقابلہ عطا تارڑ

لاہور کے حلقہ این اے 127 میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے شعلہ بیان رہنما عطا تارڑ سے ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار ظہیر عباس کھوکھر بھی دونوں اُمیدواروں کو ٹکر دینے کے لیے حلقے میں موجود ہیں۔

سن 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک کامیاب ہوئے تھے۔ 2021 میں وہ وفات پا گئے تھے جس پر ضمنی الیکشن میں ان کی اہلیہ شائستہ پرویز نے کامیابی حاصل کی تھی۔

سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی اس حلقے میں بلاول بھٹو کی حمایت کر رہے ہیں۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اس حلقے میں اگر بلاول بھٹو کامیاب ہوئے تو یہ لاہور میں پیپلزپارٹی کا بڑا اپ سیٹ ہو گا۔

این اے 130 لاہور: نواز شریف بمقابلہ ڈاکٹر یاسمین راشد

لاہور کے حلقہ این اے 130 میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی کی اسیر راہنما ڈاکٹر یاسمین راشد میں کانٹے دار مقابلے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔

سن 2013 کے عام انتخابات میں بھی ڈاکٹر یاسمین راشد نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے مقابلے میں 54 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ نواز شریف اس حلقے سے 91 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔

اس حلقے میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے آبائی علاقے ریلوے روڈ کے علاوہ ساندہ، اسلام پورہ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔

این اے 122 لاہور: سعد رفیق بمقابلہ سردار لطیف کھوسہ

لاہور کے حلقہ این اے 122 میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سردار لطیف کھوسہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس حلقے میں لاہور کے پوش علاقے بھی شامل ہیں جہاں ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کافی زیادہ ہے۔

سن 2018 کے انتخابات میں عمران خان اس حلقے سے 84 ہزار 313 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جن کے مقابلے میں خواجہ سعد رفیق 83 ہزار 633 ووٹ لے کر صرف 680 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔

عمران خان نے یہ نشست چھوڑ دی تھی جس کے بعد اکتوبر 2018 میں حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا تھا جس میں پی ٹی آئی نے ہمایوں اختر خان کو نامزد کیا، تاہم خواجہ سعد رفیق 60,476 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے گئے جب کہ ہمایوں اختر خان نے 50,445 ووٹ حاصل کیے تھے۔

این اے 119 لاہور: مریم نواز بمقابلہ میاں شہزاد فاروق

لاہور کے حلقہ این اے 119 میں پہلے پی ٹی آئی کی اسیر کارکن صنم جاوید میدان میں تھیں، تاہم وہ پی ٹی آئی کے ایک اور اسیر رہنما عباد فاروق کے بھائی شہزاد فاروق کے حق میں دست بردار ہو گئی ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں بھی پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ہے جو مریم نواز کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

میاں عباد فاروق کی اسیری کے دوران ہی ان کا کمسن بیٹا عمار فاروق انتقال کر گیا تھا جس پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

این اے 71 سیالکوٹ: خواجہ محمد آصف بمقابلہ ریحانہ ڈار

سیالکوٹ شہر کے حلقہ این اے 71 میں ہونے والا مقابلہ وسطی پنجاب کا سب سے بڑا مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف، پی ٹی آئی کے سابق رہنما عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ ڈار کے مدِمقابل ہیں۔ ریحانہ ڈار کی کچھ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جن میں اُنہوں نے الزام لگایا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے خواجہ آصف کی ایما پر اُنہیں زدوکوب کیا اور گھر میں توڑ پھوڑ کی۔

خواجہ آصف اور پولیس حکام نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

حلقے کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مقابلہ اس قدر کانٹے دار ہے کہ کسی امیدوار کی فتح یا شکست کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔

عثمان ڈار نے 2018 کے الیکشن میں خواجہ آصف کا مقابلہ کیا تھا جس میں خواجہ آصف محض ایک ہزار 493 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔ خواجہ آصف نے ایک لاکھ 16 ہزار 957 اور عثمان ڈار نے ایک لاکھ 15 ہزار 464 ووٹ حاصل کیے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ریحانہ ڈار نے الزام لگایا کہ سارا سیالکوٹ جانتا ہے کہ ان کے گھر میں غیر قانونی کارروائی کون کروا رہا ہے۔

ریحانہ امتیاز ڈار کہتی ہیں کہ انہوں نے الیکشن کمیشن اور آئی جی پنجاب سے استدعا کی ہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سیالکوٹ کو تبدیل کیا جائے کیوں کہ ان کی موجودگی میں شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔

خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو شکست نظر آرہی ہے وہ الزامات کی سیاست کر رہے ہیں۔ لیکن آٹھ فروری کو وہ ایک بار پھر مخالفین کو شکست دیں گے۔

نارووال میں احسن اقبال اور دانیال عزیز کی سیاسی لڑائی

پنجاب کے ضلع نارووال کا شمار بھی ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سیاسی درجہ حرارت بلندیوں پر پہنچ چکا ہے۔

چوہدری احسن اقبال اور دانیال عزیز چوہدری اگرچہ الگ الگ قومی حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن وہ کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ چکے ہیں اور ایک دوسرے کے حلقے میں جا کر عوامی اجتماعات میں تنقید کر رہے ہیں۔

دانیال عزیز مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہ ملنے پر اب این اے 75 سے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

احسن اقبال نے دانیال عزیز کے مقابلے میں انوار الحق چوہدری کو این اے 75 سے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دلوایا ہے اور وہ خود انوار الحق چوہدری کے حلقے میں ان کی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ یہی صورتِ حال دانیال عزیز کی ہے جو اپنے حلقے کے علاوہ این اے 76 کی میٹنگز میں بھی آ جا رہے ہیں اور احسن اقبال پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

باپ کی سیٹ پر الیکشن لڑنے والی دو بیٹیاں

حافظ آباد وسطی پنجاب کا ایک اہم ضلع ہے جوکہ قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں پر مشتمل ہے۔ قومی حلقہ این اے 67 میں اس وقت دو خواتین امیدوار سائرہ افضل تارڑ اور انیقہ مہندی حسن بھٹی مدِمقابل ہیں اور دونوں ہی اپنے اپنے والد کی سیٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔

حافظ آباد میں چار عشروں سے بھٹیوں اور تارڑوں میں روایتی مقابلہ دیکھنے میں آتا ہے۔ مہندی حسن بھٹی اپنے خاندان کے سربراہ ہیں جب کہ افضل حسین تارڑ اپنے خاندان کے قائد مانے جاتے ہیں۔

گجرات میں پھوپھی بھتیجا آمنے سامنے، صوبائی سیٹ پر پھوپھا کے ساتھ مقابلہ

گجرات کے چوہدریوں کی سیاست کا الگ انداز مشہور تھا، لوگ چوہدری برادران کے اتحاد اور اتفاق کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ لیکن یہ سب ماضی کا حصہ بن چکا اور اب باہمی اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ایک ہی خاندان کے لوگ آمنے سامنے آ گئے ہیں۔

گجرات کے حلقہ این اے 64 میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین میدان میں ہیں جنہیں مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہے۔

اُن کے مقابلے میں اُن کی پھوپھی اور سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی اہلیہ قیصرہ الہٰی میدان میں ہیں۔

چودھری سالک حسین صوبائی حلقہ پی پی 32 سے بھی امیدوار ہیں جہاں ان کا مقابلہ اپنے پھوپھا چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی مختلف مقدمات میں قید کاٹ رہے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقوں پر ہو گی کیوں کہ پنجاب میں معرکہ مارنے والی پارٹی کے لیے مرکز میں حکومت بنانے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG