رسائی کے لنکس

کیا انسانوں میں خنزیر کا جگر لگایا جاسکے گا؟


مختلف نالیوں سے منسلک شیشے کے بڑے بڑے مرتبانوں میں لوتھڑے تیر رہے ہیں جو دراصل خنزیروں کے جگر ہیں جنہیں انسانوں میں منتقل کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔

ان مرتبانوں میں ڈالے جانے سے قبل یہ جگر سرخی مائل بھورے تھے لیکن ان میں سے خنزیر کے خلیات کو صاف کرنے کی وجہ سے ان کا رنگ سفید پڑ گیا ہے۔

یہ بنیادی طور پر جگر کا خول ہے جس میں سے خنزیر کے خلیات کے اخراج کے بعد اس میں عطیہ کیے گئے انسانی جگر کے ٹکڑے کی پیوند کاری کی جائے گی۔ اس پیوند کاری کے بعد انسانی جگر کے زندہ خلیات اس خول سے منسلک ہو کر فعال ہوجائیں گے۔

یہ تجربہ منی ایپلس میں انسانوں میں اعضا کی منتقلی اور پیوندکاری کی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی کمپنی مائرومیٹرکس کی تجربہ گاہ میں ہورہا ہے۔ ان تجربات کا مقصد خنزیر کے جگر کو بائیو انجینئرنگ کی مدد سے انسانی جسم میں منتقل کرنے کے قابل بنانا ہے۔

مائرومیٹرکس کے سی ای او جیف روز کا کہنا ہے کہ ہم اس خول میں انسانی جگر کے خلیات کی نشو و نما اس حد تک کردیں گے کہ منتقلی کی صورت میں ہمارا جسم اسے خنزیرکا جگر نہیں سمجھے گا۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق مائرومیٹرکس کا یہ دعویٰ بہت بڑا ہے۔ 2023 کے دوران یہ کمپنی اپنے تیار کردہ جگر کو کارآمد ثابت کرنے کے لیے انسانوں پر اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ کرے گی۔

لیکن اس تجربے کے لیے بھی مائرومیٹرکس کو امریکہ میں ادویہ اور علاج معالجے کے طریقوں کی ضابطہ بندی کرنے والے ادارے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) سے منظوری حاصل کرنا ہوگی۔

اگر ایف ڈی اے سے تجربے کی منظوری مل جاتی ہے تو تجربہ گاہ میں جینیاتی انجینئرنگ سے تیار کردہ خنزیر کے انسانوں سے ملتے جلتے جگر کو عارضی طور پر کسی ایسے مریض کے جسم کے ساتھ منسلک کیا جائے گا جس کا جگر کام کرنا چھوڑ چکا ہو۔ ابتدائی طور پر تیار کردہ جگر کو جسم کے اندر منتقل کرنے کے بجائے باہر رکھ کر جسم سے منسلک کیا جائے گا۔

اگر اس تجربے میں یہ جگر کارآمد ثابت ہوا تو یہ بائیو انجینئرنگ سے تیار کردہ اعضا کی انسانی جسم میں منتقلی اور پیوندکاری میں ایک فیصلہ کُن کامیابی ہوسکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق جگر کے کامیاب تجربے کے بعد متوقع طور پرتجربہ گاہوں میں گردوں کی تیاری بھی شروع کی جائے گی۔

واضح رہے کہ امریکہ میں 2022 کے دوران اعضا کی ریکارڈ منتقلی اور پیوند کاری کی گئی۔ اس دوران 41 ہزار 356 افراد میں اعضا منتقل کیے گئے۔ تاہم امریکہ میں مریضوں کی تعداد زیادہ ہے جب کہ عطیہ کرنے والوں اور اعضا کی دستیاب تعداد ان کی طلب سے بہت کم ہے۔

’یہ کہانی لگتی ہے‘

امریکہ میں کئی اسپتال تجربہ گاہوں میں تیار کیے گئے اعضا کی منتقلی کی آزمائش میں شریک ہونے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ نیویارک کا ماؤنٹ سینائی ہاسپٹل بھی انہی اسپتالوں میں شامل ہے۔

ماؤنٹ سینائی میں اعضا کی منتقلی کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر سینڈر فلورمین کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ سائنس فکشن کی کہانی محسوس ہوتی ہے لیکن مستقبل قریب میں یہ ممکن ہوجائے گا کہ جانوروں کے اعضا انسانوں میں منتقل کیے جاسکیں گے۔

امریکہ میں ایک لاکھ پانچ ہزار افراد اعضا کی منتقلی کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ ان میں سے ہزاروں اعضا کی منتقلی کی نوبت آنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے جب کہ کتنے ہیں جو اس فہرست کا حصہ بھی نہیں بن پائیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں منتقلی کے لیے جس تعداد میں اعضا دست یاب ہیں وہ طلب کو پورا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دان اعضا کے حصول کے لیے جانوروں اور دیگر ذرائع کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

گزشتہ برس جنوری میں امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں ایک مریض میں خنزیر کا دل منتقل کیا گیا تھا۔ یہ مریض اس آپریشن کے بعد دو ماہ تک زندہ رہا تھا۔ یہ دل ایسےخنزیرے حاصل کیا گیا تھا جس میں اعضا کے حصول کے لیے جینیاتی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔

امریکہ میں جانوروں سے اعضا کے حصول کے لیے ہونے والی تحقیق کے بعد ایف ڈی اے اس بات پر غور کررہا ہے کہ خنزیروں میں جینیاتی تبدیلیاں کرکے ان سے گردے اور دل جیسے اعضا آزمائشی بنیادوں پر انسانوں میں منتقل کرنے کی منظوری دی جائے یا نہیں۔

کتنا وقت لگے گا؟

بائیو انجینئرنگ کے ذریعے خنزیر کے اعضا کو انسانوں میں منتقلی کے قابل کب تک بنایا جاسکے گا؟ اس کا جواب فی الحال واضح نہیں ہے۔ تاہم ایف ڈی اے نے حال ہی میں مائرو میٹرکس سے اس کی تحقیق کے متعلق سوالات پوچھے ہیں۔

اگر جسم کے باہر سے جگر کو منسلک کرنے کا تجربہ کامیاب رہتا ہے تو اس کے بعد بھی فوری اس کی منتقلی شروع نہیں ہوگی۔ اگلے مرحلے میں بائیو انجینئرنگ سے تیار شدہ ایسا عضو انسانی جسم میں منتقل کیا جائے گا جس کے کارگر ثابت نہ ہونے کی صورت میں بھی مریض کی جان کو خطرہ درپیش نہ ہو۔

اس کے لیے ممکنہ طور پر گردے کی منتقلی کی جائے گی کیوں کہ اس صورت میں آپریشن ناکام ہونے کے باوجود مریض کو ڈائیلسز پر زندہ رکھا جاسکتا ہے۔اعضا کی منتقلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بائیو انجینئرنگ کے ذریعے گردوں کی تیاری میں زیادہ تیزی سے پیش رفت ہورہی ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

ادارتی نوٹ: اس خبر میں سہواً منی ایپلس کو امریکہ کی ریاست لکھ دیا گیا تھا جس کی اب تصحیح کردی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG