رسائی کے لنکس

مالدیپ کی بھارتی فوج کو ملک چھوڑنے کے لیے 15 مارچ کی ڈیڈ لائن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ لکش دیپ پر مالدیپ کے تین وزرا کے مبینہ توہین آمیز تبصروں پر ان کی معطلی اور نئی دہلی کے سخت ردِ عمل کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اب مالدیپ کے صدر نے اپنے ملک میں موجود بھارت کے فوجی اہلکاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کر دی ہے۔

مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ 15 مارچ تک مالدیپ سے چلے جائیں۔

معیزو کے صدر منتخب ہونے کے بعد چین کے پہلے پانچ روزہ سرکاری دورے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

مالدیپ کے صدر 9 سے 13 جنوری تک چین کے دورے پر تھے جہاں دونوں ممالک کے مابین 20 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

صدر کے دفتر کے پبلک پالیسی سیکریٹری عبد اللہ ناظم ابراہیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے فوجی اہلکار مالدیپ میں نہیں ٹھہر سکتے۔ یہ صدر محمد معیزو اور ان کی انتظامیہ کی پالیسی ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت مالدیپ میں بھارت کی فوج کے 88 اہلکار موجود ہیں۔

یاد رہے کہ صدر معیزو نے منتخب ہونے کے فوراً بعد بھارت کے فوجی اہلکاروں کے چلے جانے کا کہا تھا۔

اس وقت ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سر زمین پر غیر ملکی فوجی اہلکاروں کی عدم موجودگی کو یقینی بنائیں گے۔

محمد معیزو الیکشن کے دوران ’انڈیا آؤٹ‘ مہم چلا کر صدر منتخب ہوئے ہیں۔

بھارتی فوج کے اہلکاروں کی وہاں سے واپسی ان کا کلیدی انتخابی ایجنڈا تھا۔

نومبر میں مالدیپ کی حکومت کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ مالدیپ کو امید ہے کہ بھارت وہاں کے عوام کی جمہوری خواہشات کا احترام کرے گا۔

بھارت اور مالدیپ نے فوجیوں کی واپسی پر مذاکرات کرنے کی غرض سے ایک اعلیٰ سطح کا کور گروپ تشکیل دیا ہے۔

اتوار کی صبح مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں فوج کے صدر دفتر میں اس کا پہلا اجلاس ہوا۔

رپورٹس کے مطابق مالدیپ میں بھارت کے سفیر مونو مہاور بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔

عبد اللہ ناظم ابراہیم نے اس اجلاس کے انعقاد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ایجنڈا بھارتی اہلکاروں کو 15 مارچ تک مالدیپ چھوڑ دینے کی درخواست تھا۔

بھارتی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں میڈیا رپوٹس پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے نومبر میں مالدیپ کا دورہ کرکے صدر معیزو سے ملاقات کی تھی۔

نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق فریقین نے ملٹری پلیٹ فارم کے مالدیپ کے استعمال پر قابل عمل حل نکالنے پر غور کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق بھارتی فوجی اہلکار ملٹری پلیٹ فارم سے بھارت کے زیرِ اہتمام راڈار اور نگرانی کے طیارے آپریٹ کرتے ہیں جب کہ بھارتی بحری جہاز وہاں کے اقتصادی مراکز تک گشت میں مدد کرتے ہیں۔

قبل ازیں محمد معیزو نے دو بھارتی ہیلی کاپٹروں کے میڈیکل ایمرجنسی کے دوران ان کے کردار کا ذکر کیا تھا۔ فوجی اہلکاروں کا یہ چھوٹا گروپ کئی برس سے وہاں تعینات ہے۔

اس سے قبل بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مالدیپ میں بھارت کا تعاون مشترکہ چیلنجز اور ترجیحات کی بنیاد پر ہے۔ اس کا کام عوامی فلاح و بہبود، انسانی مدد، قدرتی آفات کے موقع پر امداد اور وہاں غیر قانونی بحری سرگرمیوں میں مدد پہنچانا ہے۔

مبصرین کے مطابق بھارت کے تعلق سے مالدیپ کی پالیسی میں اچانک تبدیلی نہیں آئی ہے۔

صدر ابراہیم صالح کے پیش رو عبداللہ یامین نے 2013 میں بھارت کے خلاف مہم شروع کی تھی اور مالدیپ کو چین کے قریب کر دیا تھا۔ لیکن ابراہیم صالح نے 2018 سے 2023 تک بھارت سے دوستانہ تعلقات کی پالیسی پر عمل کیا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ صدر محمد معیزو کے انتخاب کے بعد چین سے اس کے رشتے اور مضبوط ہو گئے ہیں۔

ہفتے کو چین کے دورے سے واپسی کے بعد معیزو نے کہا کہ کسی بھی ملک کو مالدیپ کو دھمکانے کا حق نہیں ہے۔ مالدیپ چھوٹا ملک ضرور ہے۔ لیکن یہ کسی کو اس دھمکانے کا لائسنس حاصل نہیں ہے۔

ان کی میڈیا سے کی گئی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ہے۔

معیزو نے اپنے چین کے دورے کے دوران بدھ کو چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی اور چین کو مالدیپ کا قریبی حلیف اور ترقی میں شراکت دار قرار دیا تھا۔

انہوں نے چین کے ساتھ 20 معاہدوں پر دستخط کیے جن میں سیاحتی تعاون کا معاہدہ بھی شامل ہے۔

محمد معیزو اور ان کی اہلیہ کا بیجنگ میں ریڈ کارپٹ خیر مقدم کیا گیا تھا اور انہیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی تھی۔

دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے بعد باہمی تعلقات کو جامع اسٹریٹجک شراکت داری تک لے جانے کا اعلان کیا گیا۔

اس موقع پر ایک مشترکہ بیان جاری میں کہا گیا کہ فریقین کے درمیان قانون کے نفاذ، روایتی و غیر روایتی چیلنجز کا مشترکہ طور پر سامنا کرنے اور قیام امن کے سلسلے میں باہمی تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG