رسائی کے لنکس

ماسٹر کارڈ نے آن لائن ادائیگی کے لیے 'سیلفی پاس ورڈ ' متعارف کرا دیا


ماسٹر کارڈ کمپنی کے ایگزیکٹو اجے بھلہ نے بتایا کہ ہم لوگوں کو شناخت کرنا چاہتے ہیں کہ، وہ کون ہیں، یہ جاننا نہیں چاہتے ہیں کہ انھیں کیا یاد ہے۔

کریڈٹ کارڈ کا ایک گروپ ماسٹر کارڈ ایک نئی ٹیکنالوجی کا تجربہ کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے صارفین کی جان اب روایتی پاس ورڈ سے چھڑا دینی جائے لہذا کمپنی نے لوگوں کی زندگیوں میں مزید آسانی اور سہولت پیدا کرنے کے لیے آن لائن ادائیگی کا آسان طریقہ، دنیا کی پہلی 'سیلفی پاس ورڈ' کا آغاز کر دیا ہے۔

ماسٹر کارڈ نے آن لائن ادائیگی کے لیے جدید آپشن مہیا کیا ہے اور ایک نئی موبائل فون ایپلی کیشن کے ذریعے پاس ورڈ کو سیلفی تصویر سے تبدیل کر دیا ہے۔

کمپنی ایک ایسی موبائل ایپ کا استعمال کر رہی ہے، جس کی مدد سے صارفین کو اسمارٹ فونز پر آن لائن ادائیگی کے لیے پن نمبرز یا پاس ورڈ درج کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ایپ چہرے کے خدوخال سے اصلی صارف کی شناخت کر سکتی ہے۔

ماسٹر کارڈ فی الحال آن لائن خریداری کے وقت شناخت کی تصدیق کے لیے 'سیکیور کوڈ' نامی ایک نظام استعمال کرتا ہے جس میں خریداری کے اختتام پر پاس ورڈ لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک آزمائشی منصوبے کے تحت کمپنی 500 صارفین کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کا تجربہ کر رہی ہے۔

اس تجربے میں شرکاء کو اسمارٹ فون پر ماسٹر کارڈ ایپ کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن چیک آوٹ پر پاس ورڈ درج کرنے کے بجائے اپنی سیلفی ڈالنے کے لیے کہا جائے گا۔

چونکہ کمپیوٹر تصاویر یا ویڈیوز کو اس انداز میں نہیں دیکھتا ہے جس انداز میں ہم اسے دیکھتے ہیں بلکہ کمپیوٹر کے تناظر سے تصویر محض ڈیٹا کا مجموعہ ہے۔

موبائل فون اپلی کیشن چہرہ شناسی کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے عام سیلفی کی معلومات کو ڈیجیٹل ہندسوں ایک اور صفر کے ساتھ تبدیل کرتی ہے اور ویب پر ڈیجٹل معلومات کے طور پر ماسٹر کارڈ کو منتقل کرتی ہے۔

بعد ازاں کمپنی کی فائل میں موجود صارف کی تصویر کے ساتھ ڈیجیٹل کوڈ کا موازنہ کیا جاتا ہے اور اگر یہ دو کوڈ میچ ہوتے ہیں تو خریداری کی منظوری دے دی جائے گی۔

ماسٹر کارڈ کمپنی کے ایگزیکٹو اجے بھلہ نے سی این این سے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم لوگوں کو شناخت کرنا چاہتے ہیں کہ، وہ کون ہیں، یہ جاننا نہیں چاہتے ہیں کہ انھیں کیا یاد ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس یاد رکھنے کے لیے بہت زیادہ پاس ورڈ ہوتے ہیں اور یہ صارفین اور کاروباری اداروں کے لیے اضافی مسائل پیدا کرتے ہیں اسی تناظر میں مجوزہ طریقہ مستقبل میں خاصا کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ نئی نسل سیلفی لینا پسند کرتی ہے، انھیں یہ طریقہ اچھا لگے گا اور وہ اسے آسانی سے قبول کر لیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ کمپنی نے پاس ورڈ کی جگہ شناخت کی دیگر اقسام مثلاً انگلیوں کےنشانات اور آواز کی شناخت کو بھی آزمائشی تجربات میں شامل کیا ہے۔

اس سے قبل ایک برطانوی ٹیکنالوجی کمپنی نے دنیا میں پہلی بار اموجی (ڈیجیٹل تصویر) کے پاس ورڈ کا آغاز کیا جس کی مدد سے لوگ اپنے بینک اکاؤنٹ میں لاگ آن کرنے کے لیے پن نمبرز اور پاس ورڈ کے بجائے چار اموجی حروف کا استعمال کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG