رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش کے رکنِ پارلیمان کی بھارت میں پراسرار موت، 'قتل' کی تصدیق لیکن لاش نہ مل سکی


  • بنگلہ دیش کے رکنِ پارلیمان انوار العظیم 12 مئی کو علاج کے لیے بھارت گئے تھے۔
  • انوار العظیم نے 13 مئی کو دہلی میں اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتوں کے لیے جانے کا پیغام بھیجا تھا جس کے بعد سے وہ لاپتا تھے۔
  • کلکتہ کی پولیس نے 22 مئی کو انوار العظیم کے قتل کا مقدمہ درج کیا۔ لیکن ان کی لاش تاحال نہیں ملی۔
  • بنگلہ دیشی حکومت نے رکنِ پارلیمان کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔
  • انوار العظیم قتل سمیت 21 سنگین مقدمات میں ملوث تھے۔ رپورٹس کے مطابق حکومتی جماعت کا رکنِ پارلیمان بننے کے بعد وہ تمام مقدمات سے بری ہوگئے تھے۔

بھارت میں 'قتل' ہونے والے بنگلہ دیش کے رکنِ پارلیمان انواز العظیم کی ہلاکت معمہ بن گئی ہے جب کہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ قتل کے الزام میں تین افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق انوار العظیم کا تعلق حکمراں جماعت عوامی لیگ سے ہے اور وہ رواں برس جنوری میں ہونے والے انتخابات میں مسلسل تیسری بار کامیاب ہوئے تھے۔

اہلِ خانہ کے مطابق انوار العظیم علاج کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے بھارت گئے تھے جہاں وہ 15 مئی سے لاپتا تھے۔

تاہم بدھ کو بھارت کے شہر کلکتہ کی پولیس نے انوار العظیم کی موت کی تصدیق کی لیکن ان کی لاش تاحال برآمد نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزارتِ داخلہ نے بھی تصدیق کی کہ انوار العظیم کو بھارتی شہر کلکتہ میں قتل کیا گیا ہے اور بھارت میں موجودگی کے دوران وہ لگ بھگ ایک ہفتے سے لاپتا تھے۔

بنگلہ دیشی وزیرِ داخلہ اسد الزمان نے بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ بنگلہ دیش کی پولیس اور بھارت میں کلکتہ کی پولیس انوار العظیم کے قتل کی مشترکہ تحقیقات کر رہی ہیں اور قتل کے شبہے میں تین افراد کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تینوں ملزمان بنگلہ دیشی شہری ہیں۔

بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے بھی اپنی جماعت کے رکنِ پارلیمان کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیرِ داخلہ رکنِ پارلیمان کی موت کے حوالے سے میڈیا کو آگاہ کر رہےہیں۔
بنگلہ دیش کے وزیرِ داخلہ رکنِ پارلیمان کی موت کے حوالے سے میڈیا کو آگاہ کر رہےہیں۔

لاش برآمد نہ ہو سکی

بھارتی پولیس نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ انوار العظیم کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے لیکن ان کی لاش اب تک برآمد نہیں ہوئی ہے۔

بھارتی ریاست مشرقی بنگال کے ایک سینئر پولیس افسر اکلیش چترویدی کے مطابق انوار العظیم کلکتہ میں جس رہائشی کمپلیکس میں مقیم تھے وہاں لگے سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج حاصل کی جا چکی ہیں۔

ان کے بقول تحقیقات کے دوران خون کے کچھ دھبے بھی ملے ہیں۔

بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق انوار العظیم کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کے حکام کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی رکنِ پارلیمان کو کلکتہ کے ایک پوش علاقے میں موجود فلیٹ میں قتل کیا گیا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق جس فلیٹ میں قتل ہوا وہ ایک بھارتی نژاد امریکی شہری اختر الزماں نے کرائے پر لیا تھا۔

کرائم انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹر جنرل اکلیش چترویدی نے بتایا کہ فلیٹ سے حاصل کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج سے واضح ہو رہا ہے کہ 13 مئی کو انوار العظیم سے ملنے دو مرد اور ایک خاتون آئے تھے۔ بعد ازاں 13 سے 15 مئی کے درمیان الگ الگ وقتوں پر یہ افراد اس فلیٹ سے نکلے جب کہ دونوں مردوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے بیگ تھے۔

بنگلہ دیش کے ایک بڑے اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ نے اپنے اداریے میں انوار العظیم کے حوالے سے لکھا کہ وہ علاج کے سلسلے میں 12 مئی کو کلکتہ پہنچے تھے جہاں ان کا قیام اپنے ایک دوست گوپال بسواس کے گھر پر تھا۔

گوپال کے مطابق انوار العظیم 13 مئی کو گھر سے یہ کہہ کر نکلے تھے کہ وہ ڈاکٹر کو معائنہ کرانے جا رہے ہیں اور شام تک واپس لوٹ آئیں گے۔ لیکن شام میں ان کے واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا کہ وہ دہلی جا رہے ہیں جہاں ان کی کئی 'اعلیٰ شخصیات' سے ملاقاتیں ہیں۔

انوار العظیم کا گوپال کے درمیان پھر کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ گوپال کے مطابق 15 مئی کو انوار کا ایک میسج موصول ہوا کہ ان کی وی آئی پیز سے ملاقاتیں ہیں اس لیے انہیں کوئی فون کال نہ کی جائے۔

قتل کی تحقیقات کا مطالبہ

بنگلہ دیش کی حکومت اور بھارتی پولیس کی جانب سے انوار العظیم کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد ان کی بیٹی ممتارین فردوس نے اپنے والد کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ممتارین نے ڈھاکہ میں ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ انصاف چاہتی ہیں اور اپنے والد کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔

رکنِ پارلیمان انوار العظیم کی بیٹی ممتارین فردوس میڈیا سے گفتگو کر رہی ہیں۔
رکنِ پارلیمان انوار العظیم کی بیٹی ممتارین فردوس میڈیا سے گفتگو کر رہی ہیں۔

سنگین مقدمات سے بری ہونے کا معاملہ

انوار العظیم کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہونے کی خبریں اکثر و بیشتر سامنے آتی رہتی تھیں۔

’ڈیلی اسٹار‘ کے مطابق 2000 سے 2008 کے درمیان انوار العظیم کے خلاف 21 مقدمات درج ہوئے تھے لیکن عوامی لیگ کی حکومت کے دوران وہ تمام مقدمات سے بری ہو گئے تھے۔

رواں برس جنوری میں انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن میں انوار العظیم کی جمع کرائی گئی دستاویزت کے مطابق ان کے خلاف قتل کے تین مقدمات سمیت بھتہ خوری، سرکاری ٹھیکوں میں گھپلے، اسلحہ، گولہ بارود، منشیات اور سونے کی اسمگلنگ کے کیسز درج تھے جب کہ ان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا بھی الزام تھا۔

انوار العظیم کا نام انٹرپول کی بین الاقوامی طور پر مطلوب افراد کی لسٹ میں بھی شامل تھا۔ 2007 میں ان کے ریڈ وارنٹ بھی جاری ہوئے جسے 2009 میں واپس لے لیا گیا تھا۔

انوار العظیم کی سیاست میں آمد

بنگلہ دیش کے میڈیا کے مطابق 56 سالہ انوار العظیم 1993 میں 25 سال کی عمر میں ضلع جھنائدہ میں کالی گنج کے علاقے سے بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں 2009 میں وہ کالی گنج کے بلدیاتی چیئرمین بنے۔

عوامی لیگ کے ٹکٹ پر وہ پہلی بار 2014 میں انتخابات میں کامیابی کے بعد پارلیمان میں پہنچے۔ اس کے بعد 2018 اور 2024 کے انتخابات میں بھی مسلسل کامیابی حاصل کی۔

انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی کا الزام

بھارتی اخبار ’ڈھاکہ ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق انوار العظیم پر الزام ہے کہ وہ کسی زمانے میں بنگلہ دیش کے جنوب مغربی علاقوں میں انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔

ان کے خلاف اسلحہ اور گولہ بارود اسمگل کرنے کے متعدد مقدمات بھی درج ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے قانون کو چکما دیتے ہوئے عوامی عہدے حاصل کیے۔ اسی لیے انہیں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے 'گاڈ فادر' کا نام بھی دیا جاتا تھا۔

اس رپورٹ میں کچھ معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG