رسائی کے لنکس

چین نے بھارت کے کسی علاقے پر قبضہ نہیں کیا، مودی کا دعویٰ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپ اور 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی خبروں کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ٹیلیویژن بیان میں کہا ہے کہ بھارت کا کوئی بھی علاقہ چین کے قبضے میں نہیں ہے۔

حزب اختلاف کے لیڈروں کی کانفرنس کے بعد، بھارتی وزیر اعظم نے ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''کسی نے بھی ہماری سرحد کو پار نہیں کیا اور نہ اب کوئی ہماری سرحدی حدود کے اندر ہے؛ اور نہ ہی ہماری چوکیوں پر قبضہ کیا گیا ہے''۔

مودی نے یہ بھی کہا کہ چین نے سرحد پر جو قدم اٹھایا اس پر پورے ملک کو تکلیف پہنچی ہے۔ بھارت امن اور دوستی چاہتا ہے، مگر اس کے ساتھ وہ اپنی خود مختاری کو اولین ترجیح دیتا ہے۔

نئی دہلی سے ہماری نامہ نگار انجنا پسریچہ نے خبر دی ہے کہ مودی کے اس بیان کا مقصد بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ معاملے کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں۔ لداخ میں گلوان وادی میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے۔ تقریباً پچاس سال کے دوران یہ سب سے شدید سرحدی لڑائی تھی۔ مشرقی لداخ کی یہ وادی دونوں ملکوں کی سرحدوں کو ملاتی ہے اور اس کی زمینی حدود کے بارے میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا۔

پیر کو ہونے والی اس جھڑپ کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر نے چین کے وزیر خارجہ سے بات کی اور انہیں بتایا کہ چین نے بھارتی علاقے میں تعمیرات کی ہیں اور اسی لیے اس تنازعے نے شدت اختیار کی۔

چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے کے پیش نظر عارضی طور پر دونوں ملکوں نے لائین آف ایکچویل کنٹرول یا LAC قائم کی ہے۔ دونوں ملک اس متنازعہ علاقے کو اپنے اپنے ملک کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

پیر کو ہونے والی اس سرحدی جھڑپ دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی پتھروں اور اینٹوں سے ایک دوسرے پر حملہ کیا۔ چین کا بیان ہے کہ بھارتی فوجی LAC پار کرکے چینی علاقے میں گھس آئے تھے اور چینی علاقے میں روکاٹیں کھڑی کر کے قلعہ بندی کر لی تھی۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ بالکل واضح ہے۔ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، ساری ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت سرحد پر گشت کرنے والے فوجی ہتھیار اور دھماکہ خیز بارود ساتھ نہیں رکھ سکتے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اس سرحدی علاقے میں کشیدگی مئی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی جب بھارتی فوجیوں نے الزام لگایا تھا کہ چینی فوجیوں نے تین مقامات سے سرحد پار کی ہے۔

دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈر صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ مگر ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دونوں ملکوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سفارتی طور پر بھی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت چین کی بڑھتی ہوئی جارحانہ کارروائیوں پر نظر رکھنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ اپنے علاقے واپس لینے کے لیے سخت اقدام اٹھائے۔

XS
SM
MD
LG