رسائی کے لنکس

سنہ 1993 ممبئی بم دھماکے، ابو سلیم سمیت چھ افراد قصوروار


عدالت نے ملزموں کو ’’ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے‘‘ کے الزام سے بَری کر دیا ہے۔ وہ پیر کے روز سزا سنائے گی۔ اُن دھماکوں میں 257 افراد ہلاک اور 713 بری طرح زخمی ہوئے تھے اور تقریباً 27 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا

ممبئی کی ایک خصوصی ’ٹاڈا‘ عدالت نے 1993ء میں ممبئی میں ہونے والے سلسلے وار بم دھماکہ معاملے میں دوسرے مرحلے کے مقدمات میں فیصلہ سناتے ہوئے جرائم پیشہ، ابو سلیم اور مصطفیٰ ڈوسا سمیت 6 افراد کو قصوروار قرار دیا ہے۔ باقی ملزموں کے نام فیروز خان، کریم اللہ شیح، طاہر مرچنٹ اور ریاض صدیقی ہیں۔ عدالت نے عبد القیوم شیخ کو بری کر دیا۔

عدالت نے ملزموں کو ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزام سے بَری کر دیا ہے۔ وہ پیر کے روز سزا سنائے گی۔

اِن دھماکوں میں 257 افراد ہلاک اور 713 بری طرح زخمی ہوئے تھے اور تقریباً 27 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ دھماکوں کے لیے ایئر انڈیا بلڈنگ، بامبے اسٹاک ایکچنج، زاوری بازار، اس وقت کے فائیو اسٹار ہوٹلوں ہوٹل سی راک اور ہوٹل جوہو سنتور اور دیگر انتہائی اہم عمارتوں اور مقامات کو منتخب کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ ایسا پہلا دہشت گردانہ حملہ تھا جس میں اتنی بڑی مقدار میں آر ڈی ایکس کا استعمال ہوا تھا۔

ابو سلیم کو پرتگال نے 2005ء میں بھارت کے حوالے کیا تھا، جبکہ مصطفیٰ ڈوسا کی حوالگی متحدہ عرب امارات سے ہوئی تھی۔ حوالگی معاہدے کی رو سے ابو سلیم کو پھانسی یا عمر قید نہیں دی جا سکتی۔ اسے زیادہ سے زیادہ 25 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔

سنہ 2007 میں چلنے والے پہلے مرحلے کے مقدمات میں انسداد دہشت گردی عدالت نے 100 افراد کو قصوروار قرار دیا تھا، جن میں سے 23 بری ہو ئے۔ 2015ء میں اسی معاملے میں یعقوب میمن کو پھانسی دی گئی۔

چھ دسمبر 1992ء کو اجودھیا کی بابری مسجد کے انہدام اور اس کے بعد ممبئی اور ملک کے دیگر حصوں میں بھڑکے فرقہ وارانہ فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔ اس کا اعتراف سی بی آئی نے بھی کیا ہے۔ سی بی آئی کے وکیل دیپک سالوے نے کہا کہ ”مصطفیٰ ڈوسا اور دوسروں نے دبئی میں یہ سازش رچی تھی کہ ہم لوگ ممبئی میں ہتھیار بھیجیں گے اور بم دھماکے کریں گے اور ہندوؤں اور حکومت کے خلاف فساد کرائیں گے۔ انھوں نے بابری مسجد انہدام کا انتقام لینے کے لیے یہ ساری سازش رچی تھی“۔

حکومت اور ’سی بی آئی‘ کا الزام ہے کہ انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم نے ان دھماکوں کی سازش میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

دریں اثنا، ممبئی فسادات اور بم دھماکوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ، جسٹس بی این سری کرشنا نے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”اس معاملے میں بیشتر تحقیقات ثبوتوں کے بغیر کی گئی۔ میری سفارشات کو پوری طرح نافذ نہیں کیا گیا“۔

بی این سری کرشنا نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بال ٹھاکرے اور شیو سینا اور بی جے پی کے بہت سے لیڈروں کو فسادات کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ لیکن، مہاراشٹرا کی ریاستی حکومت نے رپورٹ کو ”ہندو مخالف“ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انسانی حقوق کے کارکن بم دھماکوں کے ذمہ داروں کو سزا سنانے اور فسادات کے قصورواروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر سوال اٹھاتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG