رسائی کے لنکس

مریخ پر  زلزلے کے جھٹکے، سائنس دان خوش کیوں ہیں؟


مریخ کی سطح پر شہابیے کے ٹکڑے گرنے سے پڑنے والے نشانات۔ ناسا کی مریخ گاڑی اس مقام سے تقریباً 180 میل دور تھی۔ تاہم اس کے آلات کے دھماکوں کی آوازاور زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کر لیے۔
مریخ کی سطح پر شہابیے کے ٹکڑے گرنے سے پڑنے والے نشانات۔ ناسا کی مریخ گاڑی اس مقام سے تقریباً 180 میل دور تھی۔ تاہم اس کے آلات کے دھماکوں کی آوازاور زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کر لیے۔

مریخ کو کئی حوالوں سے زمین سے مشابہت رکھنے والا سیارہ کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین سے باہر کوئی انسانی بستی بسانے کے لیے سائنس دانوں کی نظریں سب سے پہلے مریخ پر ہی پڑتی ہیں۔

مریخ پر بھی زمین کی طرح زلزلے آتے ہیں ۔ فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان زلزلوں کی وجہ عموماً وہ شہاب ثاقب ہوتے ہیں جو اپنے مدار سے بھٹک کر مریخ کی سطح سے ٹکرا جاتے ہیں۔ شہاب ثاقب جتنا بڑا ہوتا ہے اس کے ٹکرانے سے دھماکہ اور زلزلے کا جھٹکا بھی اتنی ہی شدید ہوتا ہے۔تاہم سائنس دانوں کے پاس اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔

ایسا اب پہلی بار ہوا ہے کہ انہوں نے چار شہابیوں کے مریخ کی سطح سے ٹکرانے کے بعد دھماکے کی آوازیں اور زلزلے کے ارتعاش کو ریکارڈ کیا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے بتایا ہے کہ انہوں نے مریخ کی سطح پر ڈیٹا اکھٹا کر کے زمینی مرکز کو بھیجنے کے لیے جو گاڑی اتاری تھی، اس نے سن 2020 اور 2021 میں مریخ کی سطح پر شہاب ثاقب گرنے سے پیدا ہونے والے دھماکے اور زلزلے کے ارتعاش کا ڈیٹا بھیجا ہے۔

ناسا کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مریخ کے مدار میں گردش کرنے والے سیٹلائٹ نے بھی شہاب ثاقب کے گرنے کے محل وقوع کی تصدیق کی ہے جو مریخ پر اتاری جانے والی گاڑی ’ان سائٹ‘ کے مقام سے تقریباً 180 میل کے فاصلے پر ہے۔

مریخ کی سطح سرخی مائل ہے جس کی وجہ سے اسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔
مریخ کی سطح سرخی مائل ہے جس کی وجہ سے اسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔

سائنس دانوں نے زلزلے اور دھماکے کی تصدیق پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ زمین سے باہر کسی اور سیارے پر اپنے آلات کے ذریعے اس نوعیت کا سائنسی ڈیٹا ملنے کا پہلا واقعہ ہے۔

مریخ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ پہلا شہاب ثاقت پھٹ کر کم از کم تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوا اور ان کے گرنے کے ہر مقام پر ایک گڑھا بنا۔

ناسا کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب کے مریخ کی سطح سے ٹکرانے کی گیارہ سیکنڈ کی ریکارڈنگ میں تین آوازیں ایسی ہیں جیسے پانی میں کوئی چیز ڈوبتی ہے جب کہ چوتھی بلند آواز اس طرح سنائی دیتی ہے جس طرح کوئی دھاتی ٹکڑا زمین کی سطح سے ٹکرا گیا ہو۔

روہوڈ آئی لینڈ میں قائم براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر اور جریدے ’نیچر جیو سائنس‘ میں شائع ہونے والی اس ریسرچ کے شریک مصنف انگرڈ ڈوبر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مریخ پر اتاری جانے والی گاڑی ‘ان سائٹ‘ کے ڈیٹا کے تین سال کے انتظار کے بعد مریخ کی سطح پر نمودار ہونے والا ہر گڑھا خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔

ناسا نے مریخ کی سطح پر سائنسی تجربات کرنے اور اس کا ڈیٹا زمینی مرکز کو بھیجے کے لیے ان سائٹ’ نام کی گاڑی بھیجی ہے، جس میں زلزلہ پیما بھی نصب ہے۔ مریخ پر زلزلوں کے جھٹکوں کی ریکارڈنگ اسی گاڑی کے توسط سے موصول ہوئی ہے۔
ناسا نے مریخ کی سطح پر سائنسی تجربات کرنے اور اس کا ڈیٹا زمینی مرکز کو بھیجے کے لیے ان سائٹ’ نام کی گاڑی بھیجی ہے، جس میں زلزلہ پیما بھی نصب ہے۔ مریخ پر زلزلوں کے جھٹکوں کی ریکارڈنگ اسی گاڑی کے توسط سے موصول ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ‘ان سائٹ‘ لاتعداد شہابیوں کا کھوج لگائے گی کیونکہ مریخ کی فضا بہت کمزور ہے اور وہ خلا میں بھٹکنے والے شہابیوں اور آوارہ چٹانوں کو اس طرح روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جیسا کہ زمین کا فضائی حصار ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مریخ کے گرد خلائی چٹانوں اور شہابیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

‘ان سائٹ‘ میں ایک زلزلہ پیما بھی نصب ہے جس کا مقصد مریخ پر آنے والے زلزلوں کا کھوج لگانا اور ان کی شدت کی پیمائش کرنا ہے۔تاہم اس سلسلے میں ایک دشواری یہ بھی ہے کہ مریخ کی سطح پر تیزہوائیں چلتی رہتی ہیں اور موسموں میں تغیرو تبدل جاری رہتا ہے جس کے باعث پیدا ہونے والا شور ‘ان سائٹ‘ میں نصب سائنسی آلات کے لیے مشکلات کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اس تازہ پیش رفت کے بعد سائنس دانوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کس چیز پر نظر رکھنی ہے۔

کائنات میں موجود زیادہ تر سیاروں پر کثرت سے شہابیوں اور خلا میں اڑتی ہوئی چھوٹی بڑی چٹانوں کی بارش ہوتی رہتی ہے کیونکہ ان کے گرد ہوا کی تہہ نہیں ہوتی جو خلائی اجسام کا راستہ روک سکے۔ خلائی چٹانوں کی بارش ان سیاروں کو ناقابل رہائش بنا دیتی ہے۔

انسان کی زمین سے باہر کسی اور سیارے میں آباد ہونے کی خواہش صرف اسی صورت پوری ہو سکتی ہے اگر وہ کوئی ایسا سیارہ ڈھونڈ لے جہاں کرہ فضائی موجود ہو۔ جو اسے ہوا بھی مہیا کرے اور خلائی بارش سے بھی محفوظ رکھ سکے۔

زمین کا فضائی حصار تقریباً 100 کلومیٹر تک بلند ہے۔ لیکن ہم جیسے جیسے اوپر جاتے ہیں ہوا کی مقدار کم ہوتی چلی جاتی ہے اور سانس لینے میں دشواری پیش آنے لگتی ہے۔

جب کوئی شہاب ثاقب یا کوئی بھٹکی ہوئی خلائی چٹان زمین کی جانب بڑھتی ہے تو وہ زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کے فضائی کرے کی رگڑ سے جل کر راکھ ہو جاتی ہے اور زمین تک پہنچنے والی راکھ اسے زرخیز بنانے میں مدد دیتی ہے۔ تاہم بعض اوقات کوئی بڑا شہابیہ مکمل طور پر جلنے سے بچ جاتا ہے اور اس کا کچھ حصہ زمین سے ٹکرا جاتا ہے۔ لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا ہے۔ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین پر کئی ایسی جھیلیں موجود ہیں جو زمانہ قبل از تاریخ میں شہاب ثاقب گرنے سے وجود میں آئیں تھیں۔ اسی طرح ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ کرہ ارض سے ڈینوساروں کی نسل اچانک غائب ہونے کی وجہ ایک بہت بڑے شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی تھی۔

XS
SM
MD
LG