رسائی کے لنکس

ناسا کے ’وائجرون‘ نے مہینوں کی خاموشی کے بعد دوبارہ بات کرنی شروع کردی


وائجر ون۔فائل فوٹو
وائجر ون۔فائل فوٹو
  • 1977 میں لانچ کیا گیا، وائجر ون‘ انسان کابنایا ہوا پہلا خلائی جہاز تھا جو 2012 میں انٹرسٹیلر میڈیم میں داخل ہواتھا۔
  • ’وائجر ون‘ اس وقت زمین سے 15 بلین میل سے زیادہ دور ہے۔
  • زمین سے بھیجے گئے پیغامات کو خلائی جہاز تک پہنچنے میں تقریباً 22.5 گھنٹے لگتے ہیں۔

امریکی خلائی ایجنسی نے پیر کو اعلان کیا کہ ناسا کی ’وائجر ون‘ پروب، جو کائنات میں سب سے دور انسان کی بنائی ہوئی چیز – کئی مہینوں کےلایعنی پیغامات کے بعد، اب زمین پر کنٹرول میں قابل استعمال معلومات واپس کر رہی ہے۔

اسپیس شپ نے 14 نومبر 2023 کو زمین پر ایسا ڈیٹا بھیجنا بند کر دیا تھا جوقابل فہم ہو ۔ حالانکہ کنٹرولرز بتا سکتے تھے کہ اسے اب بھی ان کے احکامات موصول ہو رہے ہیں۔

مارچ میں، ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں کام کرنے والی ٹیموں نے دریافت کیا کہ اس کی خرابی کی وجہ ایک ’چپ‘ ہے، اور انہوں نے ایک کوڈنگ فکس وضع کیا جو وائجر ون کے 46 سالہ پرانے کمپیوٹر سسٹم کی یادداشت کی سخت رکاوٹوں کے اندر کام کرتا ہے۔

وائجر ون
وائجر ون

ایجنسی نے کہا، "اب وائجرون خلائی جہاز کےانجینئرنگ سسٹم درست ہوگئے ہیں، اور وہ اسٹیٹس کے بارے میں قابل استعمال ڈیٹا واپس کر رہا ہے۔"

ایجنسی کا کہنا ہے کہ"اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خلائی جہاز سائنسی ڈیٹا دوبارہ واپس بھیجنا شروع کر سکے۔"

1977 میں لانچ کیا گیا، وائجر ون‘ ایسا پہلا خلائی جہاز تھا جو 2012 میں انٹرسٹیلر میڈیم(interstellar medium) میں داخل ہوا، اور اس وقت زمین سے 15ارب میل سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ زمین سے بھیجے گئے پیغامات کو خلائی جہاز تک پہنچنے میں تقریباً 22.5 گھنٹے لگتے ہیں۔

2013 میں بتایا گیا تھا کہ سائنسدانوں کے مطابق ’وائجر ون‘ جسے 1977 میں خلائی دنیا تسخیر کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا، نظام ِ شمسی سے باہر اب ایک اور نئی دنیا تسخیر کرنے کے راستے پر رواں دواں ہے۔

سائنسدانوں کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق یہ خلائی جہاز اسُ وقت ہماری زمین سے گیارہ ارب میل کی دوری پر تھا۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اس خلائی جہاز کے ارد گرد کے ماحول میں دو بڑی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔
سائنسدانوں کی جانب سے اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ خلائی جہاز سے نکلنے والی شعاعوں کی سطح میں تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے۔ ایک وہ شعاعیں تھیں جو نظام ِ شمسی کے اندر کی شعاعیں ہیں۔ دوسری طرح کی شعاعیں وہ تھیں جو ستاروں کے درمیان خلاء میں سے پھوٹتی ہیں۔
ماہر ِ فلکیات بل ویبر کاکہنا تھا کہ’’Heliosphere" یا نظام ِ شمسی کا وہ حصہ جہاں شعاعیں منعکس ہوتی ہیں، اس میں پہلے کے مقابلے میں ایک فیصد شعاعوں کی سطح میں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ ستاروں سے پھوٹنے والی شعاعوں کا تناسب پہلے کی نسبت دو گنا ہو گیاتھا۔‘‘
گو کہ سائنسدان ابھی تک یہ کہنے سے گریز کر رہے ہیں کہ ’وائجر ون‘ ستاروں کے درمیان واقع اس خلاء میں موجود ہے جہاں ستاروں کی شعاعیں نکلتی ہیں جسے انگریزی میں interstellar space کہتے ہیں۔

اس کے جڑواں، Voyager 2 نے بھی 2018 میں نظام شمسی کو چھوڑ دیا۔

ناسا کا 2002 کا وائجر ون کا فوٹو۔
ناسا کا 2002 کا وائجر ون کا فوٹو۔

دونوں وائجر خلائی جہاز "گولڈن ریکارڈز" رکھتے ہیں، یعنی 12 انچ، سونے کی چڑھائی ہوئی تانبے کی ڈسکیں جن کا مقصد ہماری اس دنیا کی کہانی کو ماورائے دنیا تک پہنچانا ہے۔

ان میں ہمارے نظام شمسی کا نقشہ، اور یورینیم کا ایک ٹکڑا شامل ہے جو تابکار گھڑی کے طور پر کام کرتا ہے جو وصول کنندگان کو خلائی جہاز کے آغاز کی تاریخ بتاتا ہے، اور علامتی ہدایات جو یہ بتاتی ہیں کہ ریکارڈ کو کیسے چلایا جائے۔

افسانوی ماہر فلکیات کارل سیگن کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے ذریعہ NASA کے لیے منتخب کردہ ریکارڈ کے مواد میں زمین پر زندگی کی ایسی تصاویر کے ساتھ ساتھ ، جنہیں کوڈ کیا گیا ہے،موسیقی اور آوازیں بھی ہیں جو شامل کیے جانے والے اسٹائلس کا استعمال کرکے چلائی جاسکتی ہیں۔

توقع ہے کہ وائجرز کے پاور بینک 2025 کے بعد کسی وقت ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد وہ کہکشاؤں میں، ممکنہ طور پر ہمیشہ کے لیے، خاموشی سے بھٹکتے رہیں گے۔

اس رپورٹ میں کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG