رسائی کے لنکس

شہری حقوق کے تقریباً دو درجن گروپوں کی ملک گیر تحریک کا آغاز


نئی دہلی
نئی دہلی

جنتا دل یو کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ شرد یادو نے کہا کہ ”آج 30 فیصد لوگ 70 فیصد لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ ان 70 فیصد لوگوں کو ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا“

تقریباً دو درجن سول رائٹس گروپوں نے نریندر مودی حکومت پر مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کا الزام عاید کرتے ہوئے موجودہ ماحول اور لاقانونیت کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کیا۔

ملی و سماجی تنظیم ’آل انڈیا ملی کونسل‘ کی قیادت میں ’آئین بچاؤ، ملک بناؤ‘ مہم کے تحت نئی دہلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم میں منعقدہ ایک قومی کنونشن میں اس مہم کو شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں تک لے جانے اور مرکزی حکومت کی مبینہ ”مذموم سازش“ کے خلاف عوام کو بیدار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے، جسٹس راجندر سچر نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ”ان طاقتوں کو شکست دینے کے لیے متحد ہوجائیں جو آئین کی روح کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں“۔

سینئر کانگریس رہنما منی شنکر آئر نے سیکولرزم اور متنوع معاشرے کو مبینہ طور پر تباہ کرنے کے خلاف مرکزی حکومت کو خبردار کیا۔

جنتا دل یو کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ شرد یادو نے کہا کہ ”آج 30 فیصد لوگ 70 فیصد لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ ان 70 فیصد لوگوں کو ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا“۔

سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی نے ”دستور کے ساتھ کھلواڑ“ کیے جانے پر اظہار تشویش کیا۔

حقوق انسانی کی معروف کارکن تیستا سیتلواڈ نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے نعرے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔

ملی کونسل کے صدر مولانا عبد اللہ مغیثی نے حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ ”اپنی متعصبانہ پالیسیوں سے اجتناب کرے“۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تحریک چلانے والے ڈاکٹر رام پنیانی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ”آئین اور جمہوریت پر منڈلاتے خطرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں“۔

’سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز‘ کے ڈائرکٹر اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر نے دستور کو بچانے پر زور دیا۔ کنونشن سے 100 سے زائد شخصیات نے خطاب کیا۔

آل انڈیا ملی کونسل کے چیئرمین اور کنونشن کے کنوینر ڈاکٹر محمد منظور عالم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہرگز نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ جن لوگوں کو پریشان کیا جا رہا ہے خواہ وہ اقلیت ہوں، مسلمان ہوں یا دلت ہوں یا کمزور طبقات ہوں سب کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے تمام انصاف پسند لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا“۔

انھوں نے مزید کہا کہ ”تین سال سے مسلمانوں، دلتوں اور دوسرے لوگوں پر ہدف بنا کر حملے کیے جا رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تم لوگ غلام ہو غلام بنے رہو ورنہ تمھاری خیر نہیں۔ ملک میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے جس کے خلاف مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ یہ آئین و قانون کا بھی مسئلہ ہے۔ ملک میں قانون کی بالادستی بہت ضروری ہے“۔

اس موقع پر 11 نکاتی قرارداد منظور کرکے نفرت انگیز ماحول کو ختم کرنے اور آئین و قانون کی بالادستی کا مطالبہ کیا گیا۔

دریں اثنا، 100 سے زائد سابق فوجیوں نے جن میں کئی اعلیٰ عہدے دار بھی شامل ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک مکتوب میں ”ہندوازم کے خود ساختہ محافظوں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دلتوں پر ہونے والے حملوں“ کی مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ ”بھارت کی تکثیریت ہی اس کی طاقت ہے اس کا ہر حال میں تحفظ ہونا چاہیے“۔

واضح رہے کہ گائے کے تحفظ اور ہندو ثقافت کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی اس پر ہنگامہ جاری ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایسے حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے، وہ اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی کم از کم تین مرتبہ ان حملوں پر اظہار تشویش کر چکے ہیں۔ انھوں نے نام نہاد گائے محافظوں کو جرائم پیشہ عناصر کہا ہے اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان حملوں کو روکیں اور حملہ آوروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG