رسائی کے لنکس

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں تازہ تشدد۔ نو ہلاک ، درجنوں زخمی


بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہرہ۔ فائل فوٹو
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہرہ۔ فائل فوٹو

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں اتوار کو سرکاری دستوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں تین مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے۔ جھڑپ جنوبی ضلع گُلگام کے لارو گاؤں میں پیش آئی۔

جھڑپ کے دوران ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے گھروں سے باہر آکر بھارت مخالف اور عسکریت پسندوں کے حق میں مظاہرے کئے اور سرکاری دستوں پر مبینہ طور پر سنگباری کی ۔

جھڑپ میں تین عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی خبر پھیلتے ہی ان مظاہروں اور پتھراؤ کے واقعات میں شدت آگئی۔

دیکھنے والے کہتے ہیں کہ پولیس ، نیم فوجی دستوں اورفوج نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے ہجوموں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس اور چھرے والی بندوقیں استعمال کیں اور پھر اُن پر براہِ راست گولی چلادی۔ درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ سرکاری دستوں میں شامل کئی اہلکاروں کو بھی چوٹیں آ گئیں۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسی دوران اُس نجی مکان کے ملبے میں موجود کوئی بارودی شے پھٹ گئی جہاں اس سے پہلے محصور عسکریت پسندوں اور سرکاری دستوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ تین شہری موقعے ہی پر لقمہ اجل بن گئے۔

دھماکے اور سرکاری دستوں کی طرف سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں شدید طور پر زخمی ہونے والے مزید تین افراد اسپتال میں چل بسے۔

عہدیدار کہتے ہیں کہ شہری ہلاکتیں دھماکے میں ہوئیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ کم سے کم تین شہری سرکاری دستوں کی طرف سے مظاہرین پر کی گئی فائرنگ میں مارے گئے۔ گلگام، قریبی شہر اننت ناگ اور ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے اسپتالوں میں ایسے درجنوں افراد کا علاج کیا جارہا ہے جنہیں ڈاکٹروں کے مطابق چھرے اور گولیاں لگی ہیں یا پھر بارودی مواد کے ذرے لگنے سے زخم آگئے ہیں۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کے مطابق جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کا تعلق کالعدم تنظیم جیشِ محمد سے ہے۔ انہوں نے دھما کے میں ہوئی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور سوگوار خاندانوں سے تعزیت کی۔

پولیس نے بتایا ہے کہ لوگوں کو یہ صلاح دی گئی تھی کہ وہ انکاؤنٹر کی جگہ پر فوری طور پر جانے سے اجتناب کریں لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کیا اور جائے واردات سے سیکیورٹی فورسز کے چلے جانے کے ساتھ ہی وہاں جمع ہو گئے اور پھر دھماکے میں ہلاک یا زخمی ہو گئے۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی مختلف سیاسی جماعتوں نے اتوار کو پیش آئے واقعات میں ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور سرکاری دستوں کی طرف سے شہریوں کے خلاف ان کے بقول طاقت کے بے دریغ استعمال پر احتجاج کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نےشہری ہلاکتوں پر احتجاج کرنے کے لئے کل پیر کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ایک عام ہڑتال کرنے کی اپیل جاری کردی ہے۔

حکام نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر پیر کو تعلیمی اداروں کو بند رکھنے اور سرینگر کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے حساس علاقوں میں کرفیو یا کرفیو جیسی حفاظتی پابندیاں عائد کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ وادئ کشمیر کے کئی حصوں میں اتوار ہی کو انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئیں جبکہ ٹرین سروسز کو بھی جزوی طور پر معطل کیا گیا ہے۔ عہدیداروں نے کہا کہ ایسا حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا ہے۔

اس دوراں بھارتی فوج نے کہا ہے کہ متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین کے ضلع راجوری کے سُندر بنی علاقے میں ہوئی ایک جھڑپ میں تین بھارتی فوجی اور دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔

اتوار کو سرمائی صدر مقام جموں میں بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ علاقے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے در اندازی کرنے والے عسکریت پسندوں اور بھارتی فوج کے درمیان اتوار کی سہ پہر سے گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے۔ ترجمان کی مطابق جھڑپ کے دوران ایک فوجی شدید طور پر زخمی ہوا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG