رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: ایک سال کے دوران وادی کی سیاست میں کیا تبدیلیاں آئیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی حکومت کی طرف سے اس کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم اور متنازع ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بھارت میں ضم کرنے کے اقدام کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔

بھارت نے گزشتہ برس پانچ اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-اے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے زیرِ انتظام مسلم اکثریتی علاقے کی جزوی خود مختار حیثیت ختم کی تھی۔

اس اہم پیش رفت کے بعد جموں و کشمیر میں مکمل طور پر لاک ڈاون کیا گیا اور خطے میں 35 ہزار اضافی فوجی تعینات کیے گئے۔

وادی میں مواصلاتی پابندیوں کے علاوہ کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلی سمیت تمام اہم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند بھی کیا گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک برس کے دوراں مرکزی دھارے میں شامل علاقائی سیاسی جماعتوں پر جمود طاری رہا۔ ان میں سے بعض اندرونی بحران کا شکار بھی نظر آ رہی ہیں۔

گزشتہ برس پانچ اگست کو سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ ﴿پی ایس اے) کے تحت باضابطہ طور پر جن رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا انہیں رہا کیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود وادی میں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سوائے دو تین شخصیات کے سب اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بریک لگا چکے ہیں۔ جو لوگ دوبارہ متحرک نظر آ رہے ہیں اُن میں سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ شامل ہیں۔ وہ بھی اپنی آرا کا اظہار سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر کر رہے ہیں یا پھر ذرائع ابلاغ کے ساتھ انٹرویوز میں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کئی علاقوں کو سیل کر دیا گیا تھا۔ (فاِ؛ فوٹو)
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کئی علاقوں کو سیل کر دیا گیا تھا۔ (فاِ؛ فوٹو)

عمر عبداللہ کا عام لوگوں کے ساتھ براہِ راست کوئی رابطہ نہیں ہے۔ وہ اس کی وجہ جیلوں سے رہائی کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے نقل و حرکت پر عائد پابندیوں اور کرونا وائرس کے منڈلاتے خطرے کو قرار دے رہے ہیں۔

گرشتہ ایک سال کے دوراں عوامی سطح پر کوئی سیاسی جماعت واضح وجوہات کی بنا پر متحرک نظر آئی تو وہ بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نظریاتی وجوہات کی بنا پر بی جے پی کو کشمیر میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے یہ سیاسی خلا سے فائدہ اٹھانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔

لیکن بعض ماہرین کے مطابق جموں کے ہندو اکثریتی اضلاع میں بی جے پی کو اب بھی ایک سیاسی قوت سمجھا جاتا ہے۔

مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں چند مقامی افراد بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔ لیکن گزشتہ ماہ شمالی ضلع بانڈی پور میں عسکریت پسندوں کی طرف سے پارٹی کے ایک مقامی لیڈر شیخ وسیم باری کے قتل کے بعد بی جے پی کے کم سے کم تین مقامی رہنما اور متعدد کارکن پارٹی سے مستعفی ہو گئے ہیں۔

آٹھ جولائی کو پیش آئے اس واقعے کے بعد صرف وادیٴ کشمیر میں 130 سے زائد سیاسی کارکنوں کو جن میں سے اکثر کا تعلق بی جے پی سے ہے، پولیس نے تحفظ فراہم کیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے عوامی سطح پر اپنی سرگرمیاں محدود کر رکھی ہیں۔

بھارت سے جموں و کشمیر کے الحاق کی حامی علاقائی سیاسی جماعتوں کے قائدین اعتراف کرتے ہیں کہ موجودہ صورتِ میں وہ بڑی حد تک غیر متعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس بات کو لے کر وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ عوام کے سامنے جائیں تو کیا لے کر جائیں۔

جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف احتجاج اور مظاہرے
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ﴿ پی ڈی پی﴾ کے سینئر رہنما اور سابق وزیر سید نعیم اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علاقائی جماعتیں پانچ اگست 2019 سے پہلے بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔

اُن کے بقول، "ہم نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا ہے جس کے لیے ایک آئینی ضمانت موجود تھی۔ جب آئین ہی نہ رہا تو اب سیاسی جماعتیں لوگوں کے پاس کیا لے کر جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور بی جے پی کی طرف سے جموں و کشمیر پر جو یلغار ہو رہی ہے وہ ہماری شناخت، انفرادیت اور تشخص کو مٹانے کی دانستہ کوششں ہے۔

سید نعیم اختر نے کہا کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ہمارا مذہب اور ہماری ثقافت بھی خطرے میں ہیں، مقامی افراد میں بے چینی ہے جس کی وجہ سے ایک سنسنی خیز ماحول بنا ہوا ہے۔

ان کے بقول ایک خدشہ پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم یہی کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو دوبارہ بحال کیا جائے۔

'عوام کے اعتماد کو بحال کرنا آسان نہیں'

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کشمیری عوام کی ایک بڑی تعداد بھارت کے مرکزی دھارے سے متعلق سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی۔ ان کے مطابق اگر یہ اطلاع صحیح بھی ہے کہ نریندر مودی کی حکومت داخلی اور خارجی مجبوریوں کے پیشِ نظر جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ لوٹانے پر آمادہ ہو گئی ہے، تو بھی عام لوگوں میں پائی جانے والی بد دلی کو دور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہٴ سیاسیات کے سابق پروفیسر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ بھارت کی حکومت بے ایک برس کے دوراں جو فیصلے کیے ہیں اُن سے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں اور قائدین کے اس مؤقف کی تائید ہوئی ہے کہ بھارت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پانچ اگست کا فیصلہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا جس کی وجہ سے جموں و کشمیر کی سیاست یکسر اور ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے۔

نور احمد بابا کے بقول پانچ اگست 2019 کو جو اقدام اٹھایا گیا اگر اس کی تلافی بھی کی جاتی ہے تو بھی اس نے جو زخم لوگوں کو دیے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہو پائیں گے۔

ان کے بقول وہ لوگ جنہیں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری علیحدگی کی تحریک کے باوجود بھارت، اس کے سیکیولر ازم، جمہوریت اور وفاقی کردار پر بھروسہ تھا، آج یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے دل چھلنی کر دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب اس سے علیحدگی کی سیاست صحیح ثابت ہوئی ہے اور اس سے جڑے افراد کی یہ دلیل مستحکم ہوگئی ہے کہ بھارت ایسا ملک نہیں جہاں جمہوری آرزوں اور امنگوں کو احترام حاصل ہے۔

بی جے پی پر اپنے سیاسی نظریے کو مسلط کرنے کا الزام

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ﴿ پی ڈی پی﴾ جموں و کشمیر میں بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل رہی ہے۔

پی ڈی پی نے سابق حلیف جماعت پر ایک مخصوص سیاسی نظریے کو مسلط کرنے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت جس کی پشت پناہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جیسی انتہا پسند ہندو تنظیم کر رہی ہے سابقہ ریاست میں دوسری سیاسی جماعتوں کے اثر و نفوز کو کم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔

پی ڈی پی کے نعیم اختر کا کہنا ہے کہ بی جے پی جمہوریت کو پامال اور ہر جمہوری ادارے کو تباہ کرنے پر کاربند ہے اور اس پر ڈھٹائی سے فخر محسوس کر رہی ہے۔

دوسری جانب بی جے پی کی مقامی شاخ کے صدر رویندر رینہ کا کہنا ہے دراصل یہ جماعتیں ماضی میں برسرِ اقتدار رہنے کے دوران کی گئی کرپشن، سیاسی بے ضابطگیوں اور عوام کو گمراہ کرنے کی سرگرمیوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہیں اور نئے حالات میں ان کے لیے ابھرنا محال بن گیا ہے۔

اُن کے بقول، "مودی جی نے ان جماعتوں کو ان کی اوقات دکھا دی ہے۔"

بعض بھارتی تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی جماعتوں کانگریس، مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور ترنمول کانگریس کا کہنا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو جموں و کشمیر کی عملی سیاست سے بزورِ طاقت دور رکھنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

نعیم اختر کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے امن اور جمہوریت میں ہماری کئی دہائیوں کی سرمایہ کاری کو ختم کیا ہے۔ محض ایک پارٹی کے لیے سیاسی فائدے کی قیمت پر اور بھارت میں ہندو ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے جمہوری معاشرے کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس کا خمیازہ پورے ملک کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

آزادی پسند جماعتیں بھی جمود کا شکار

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پانچ اگست 2019 سے پہلے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے قائدین کشمیر کی سیاست پر حاوی نظر آ رہے تھے۔ خاص طور پر وادیٴ کشمیر میں ان کا سکہ خوب چلتا تھا۔ تاہم وہ بھی گزشتہ ایک سال کے دوران کشمیری سیاست میں حالات کے مطابق روایتی کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو حاصل اختیارات کے خاتمے کے محض تین ہفتے بعد یہ افواہ پھیلی کہ جموں و کشمیر کے جن سیاسی رہنماؤں نے اپنی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے مچلکوں پر دستخط کیے تھے اُن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے چند قائدین اور کارکن بھی شامل ہیں۔ بعض بھارتی اخبارات نے بھی اس طرح کی خبریں شائع کیں جن میں میر واعظ عمر فاروق کا نام بھی لیا گیا تھا۔

کُل جماعتی حریت کانفرنس اتحاد کے اپنے دھڑے کے چیئرمین میر واعظ عمر نے اپنے فوری ردِ عمل میں اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ انہوں نے کسی بانڈ پر دستخط کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی کے ذریعے لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ وہ نہ صرف اپنے گھر پر نظر بند ہیں بلکہ حکام نے ان کا فون اور انٹرنیٹ کنکشن بھی منقطع کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں سے بات کرنے سے قاصر ہیں۔

سید علی گیلانی کے استعفے کا آزادی پسند کیمپ پر اثر

رواں برس جون میں سرکردہ آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی غیر متوقع طور پر کُل جماعتی حریت کانفرنس کے اُس دھڑے سے مستعفی ہو گئے تھے جس کے وہ تا حال چیئرمین مقرر کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں اپنے قیام کے دس برس بعد لیڈرشپ میں بعض امور پر اختلافات کی بنا پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔

بعد ازاں کشمیر کے مسئلے پر سخت گیر مؤقف کے حامل اتحاد کے دھڑے کی قیادت سید گیلانی نے سنبھال لی تھی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں سرکردہ مذہبی اور سیاسی لیڈر میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہو گئی تھیں۔

سید گیلانی نے اپنے ساتھیوں کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ حریت کانفرنس کی موجودہ صورت حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ اس فورم سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ اس فورم کے ساتھیوں کی کارکردگی کے لیے جواب دہی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

عام لوگوں کے ایک وسیع حلقے میں بھی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پانچ اگست کے بھارتی حکومت کے اقدام کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والی زمینی صورتِ حال میں سید گیلانی بھی ایک فعال کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔

لیکن 91 سالہ سید گیلانی نے اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے اپنے خط میں لکھا تھا "جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض، روح کے ضعیف ہونے کے مترادف نہیں ہے، نہ قلب و ذہن کی قوت موقوف ہوئی ہے اور نہ ہی میرے جذبہ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے۔ اس دیارِ فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسب استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔

انہوں نے اپنے ایک کھلے خط میں حریت کانفرنس ﴿گیلانی﴾ کی اس سُستی اور غیر فعالیت کے لیے اپنے ساتھیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا تھا۔ بعد ازاں انہوں بعض ناقدین کے ان پر کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت سے منہ موڑنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے الزامات کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

سید علی گیلانی کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک تحریکِ آزادیٔ کشمیر سے جڑے رہیں گے اور اس ضمن میں اپنی خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

علیحدگی پسندوں پر حکومت کا بڑھتا دباوٴ

تجزیہ کار پروفیسر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ سید علی گیلانی اور میر واعظ یا ان کے ساتھیوں کو کسوٹی پر ڈالنے سے پہلے ان حالات کو زیرِ نظر رکھنا ہو گا جن سے پوری آزادی پسند قیادت کو گزشتہ چند برسوں کے دوراں بی جے پی حکومت نے گزارا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سید گیلانی علالت اور زائدالعمری کے باوجود گزشتہ دس برس سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں اور میر واعظ پر بھی ایک طویل عرصے سے قدغنیں عائد ہیں جب کہ یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ انداربی اور کئی دوسرے لیڈر مختلف الزامات میں تقریباً دو سال سے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں

شیخ شوکت کے بقول جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ وہ عوام کی رہنمائی کرنے میں ناکام ہوئے ہیں تو یہ زیادتی ہو گی۔

دوسری جانب بی جے پی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے کشمیری علیحدگی پسند قیادت اور جماعتوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

بی جے پی کے قومی نائب صدر اویناش کھنہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام تشدد اور دہشت گردی کے ناپاک اور نجس وجود سے نالاں و پریشان تھے۔ مودی جی نے اسے ختم کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے وہ کامیابی سے ہم کنار ہو رہے ہیں۔

ان کے بقول جموں و کشمیر میں بہت جلد امن و آشتی اور تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ آزادی پسند قیادت اور اس کےحامیوں کے خلاف اٹھائے گئے سخت گیر اقدامات نے بھلے ہی ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہو لیکن وادیٴ کشمیر میں علیحدگی کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں جو پوری ریاست کی مجموعی سیاسی اور حفاظتی صورتِ حال پر اثر انداز ہوتی رہیں گی۔

یونیورسٹی آف کشمیر کے سابق پروفیسر محمد اسلم کے مطابق بندوق اور تشدد کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں لیکن بھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ اس مسئلے کو حل کرنا ناگزیر ہے۔

ان کے بقول مسئلہ کشمیر کو جتنی جلدی حل کر لیا جائے تو اس پورے خطے کے مفاد میں ہو گا۔ کشمیر کے مسئلے کو مزید التوا میں ڈالنا منفی نتائج پر منتج ہو سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG