رسائی کے لنکس

بھارت میں بچی کے ساتھ ریپ: سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا احتجاج


بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے علاقے اجین میں ایک 12 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے خلاف سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سماجی ماہرین کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس واقعے کو معاشرے کی بے حسی کی ایک بدترین مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق کمیشن ’نیشنل کمیشن فار پروٹکشن آف چائلڈ رائٹس‘ (این سی پی سی آر) نے مدھیہ پردیش کی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے واقعے کی تفصیلات طلب کی ہیں۔

اپوزیشن جماعت کانگریس نے ریاست کی شیو راج سنگھ چوہان کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت پر شدید تنقید کی اور اس پر ریاست میں نظم و نسق کی صورتِ حال کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا۔

پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ بچی کے ساتھ جو بربریت ہوئی ہے اس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔

اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ ریاست میں بچیاں غیر محفوظ اور مجرم آزاد ہیں۔ بیان کے مطابق ایک طرف بچی کی چیخوں نے ملک کو دہلا دیا اور دوسری طرف وزیر اعلیٰ انتخابات میں مصروف ہیں۔

کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وزیرِ اعظم دورے پر دورہ کر کے عوام کو پارلیمان اور اسمبلیوں میں خواتین کے ریزرویشن کا خواب دکھا رہے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ بی جے پی حکومت والی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک 12 سالہ بچی کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کا واقعہ سامنے آیا ہے۔

سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے اس واقعے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ یہ بھیانک جرم بھارت ماتا کی روح پر حملہ ہے۔

مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر کمل ناتھ اور سینئر رہنما پرینکا گاندھی اور دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی اس واقعے پر ریاستی حکومت کی مذمت کی اور کہا کہ بی جے پی حکومت میں بچیاں، خواتین، دلت اور قبائلی محفوظ نہیں ہیں۔

ادھر ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کہا ہے کہ اس خوفناک جرم کی جانچ کے لیے ’اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم‘ (ایس آئی ٹی) تشکیل کی گئی ہے۔

'معاشرہ بھی ذمے دار ہے'

انسانی حقوق کے کارکن اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی وارداتوں کا ذمہ دار معاشرہ بھی ہے، پولیس انتظامیہ بھی ہے اور بڑی حد تک سیاسی ماحول بھی ہے۔

خواتین اور بچیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’پاور فاؤنڈیشن‘ کی بانی ثمینہ شفیق کہتی ہیں کہ معاشرے سے حساسیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گھروں میں لڑکوں کو یہ نہیں سکھایا جا رہا کہ انھیں خواتین کی عزت کرنی چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسی وارداتوں کے لیے سیاسی نظام بھی ذمہ دار ہے۔

ان کے مطابق بھارت اقوامِ متحدہ کے ’سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ‘ (پائیدار ترقی) کے ایجنڈا 2030 کا دستخط کنندہ ہے جو کہ خواتین کے تحفظ اور صنفی مساوات کی بات کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت میں اس سلسلے میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے۔

سماجی امور کے ماہر ڈاکٹر بال مکند سنہا ان کی باتوں کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ موجودہ سماج تخلیقی ذہن والا سماج نہیں رہا۔ اس وقت سماج پر پیسہ اور طاقت کی بالادستی ہے۔

بقول ان کے پہلے عوامی جذبات کو تعمیری کاموں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن اب عوامی جذبات کو سماج میں نفرت پھیلا نے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

'اب پہلے جیسا احتجاج بھی نہیں ہو رہا'

تجزیہ کاروں کے مطابق جب نئی دہلی میں نربھیا کا واقعہ پیش آیا تھا تو اس کے خلاف پورے ملک میں زبردست احتجاج ہوا تھا جس سے مجبور ہو کر حکومت کو خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق قوانین بہت سخت کرنے پڑے تھے۔ لیکن اب ایسی وارداتوں پر ویسا احتجاج نہیں ہوتا۔

خیال رہے کہ 23 سالہ طالبہ نربھیا سے زیادتی اور قتل کا واقعہ 2013 میں پیش آیا تھا جس میں مجموعی طور پر چھ ملزمان ملوث تھے۔

نئی دہلی میں چلتی بس میں ہونے والے اس واقعے پر بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا۔ سن 2020 میں اس جرم پر چار مجرموں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

ثمینہ شفیق کہتی ہیں کہ اس کے لیے عوام کو بیدار ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ تعلیمی نظام میں اس طرح تبدیلی کی ضرورت ہے کہ نئی نسل کو جرائم کے خلاف حساس بنایا جائے۔

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ صرف قوانین بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ان پر عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

'اگر قانون پر عمل ہو تو ایسے واقعات روکے جا سکتے ہیں'

ڈاکٹر بال مکند کے مطابق اجین کی بچی کے ساتھ لوگوں کا جو سلوک تھا اور جس طرح کسی نے اس کی مدد نہیں کی وہ معاشرے میں پھیلنے والی عدم حساسیت کا ایک مظہر ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن وانی سبرامنیم بھی ایسی وارداتوں کے لیے سیاسی نظام اور خاص طور پر حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔

ان کے خیال میں اگر حکومت چاہے تو اس قسم کی وارداتیں نہیں ہو سکتیں۔ اگر قوانین کا مکمل طور پر نفاذ ہو اور مجرموں کو سخت سزا ملے تو ایسے جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ ایسے معاملات میں حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ قانون بلا امتیاز اپنا کام کرتا ہے اور قصورواروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔ حکومت اور حکمراں جماعت کی طرف سے ایسے معاملات کو سیاسی ومذہبی نقطۂ نظر سے دیکھنے کے الزام کی تردید کی جاتی ہے۔

دریں اثنا مدھیہ پردیش کی پولیس نے اس معاملے میں ایک آٹو رکشہ ڈرائیور کو گرفتار اور تین کو حراست میں لیا ہے۔ آٹو ڈرائیور کی شناخت 38 سالہ راکیش کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ بچی اس رکشہ پر سوار ہوئی تھی۔ رکشہ پر خون لگا ہوا بھی پایا گیا ہے جس کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

بچی کے گھر کے بارے میں ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ پہلے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ وہ اترپردیش کے پریاگ راج سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن اب بعض رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ وہ مدھیہ پردیش ہی کی ہے۔

اندور کے ایک اسپتال میں اس کا علاج ہو رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق وہ ابھی بولنے یا بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG