رسائی کے لنکس

افغان سفیر طلب، ’لگائے گئے الزامات‘ پر پاکستان کا اظہارِ تشویش


سکریٹری خارجہ نے ’اس بات پر زور دیا کہ ایسے الزامات سے باہمی اعتماد پر حرف آتا ہے اور باہمی تعلقات کی فضا متاثر ہوتی ہے، جسے بہتر بنانے کے لیے دونوں ملک سخت کوششیں کرتے رہے ہیں‘

پاکستان میں افغانستان کے سفیر، جانان موسیٰ زئی کو بدھ کے روز وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا، جہاں سکریٹری خارجہ نے ’افغان سفیر کو حکومت افغانستان کی جانب سے لگائے گئے حالیہ الزامات اور پاکستان کو بدنام کرنے کی میڈیا مہم پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا۔‘

یہ بات پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان، قاضی خلیل اللہ نے ایک بیان میں کہی ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ سکریٹری خارجہ، اعزاز احمد چودھری نے ’اس بات پر زور دیا کہ ایسے الزامات سے باہمی اعتماد پر حرف آتا ہے اور باہمی تعلقات کی فضا متاثر ہوتی ہے، جسے بہتر بنانے کے لیے دونوں ملک سخت کوششیں کرتے رہے ہیں‘۔

بیان کے مطابق، سکریٹری خارجہ نے کہا ہے کہ ’پاکستان انتہائی تحمل سے کام لیتا رہا ہے‘ اور پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ ’الزام دھرنے‘ کے رویے سے احتراز کیا جائے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ’16 اور 17 اگست کو افغانستان کی جانب سے سرحد پار خلاف ورزیوں پر بھی ایک سخت احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا، جس واقع میں فرنٹیئر کانسٹبلری کے تین اہل کار شہید اور دو زخمی ہوئے تھے‘۔

بیان کے مطابق، ’افغان سفیر کو پیغام دیا گیا کہ پالیسی مؤقف کے طور پر پاکستانی حکام فائر کھولنے میں پہل نہیں کیا کرتے، اور جوابی فائر بھی اپنے دفاع ہی میں کرتے ہیں‘۔

’پاکستانی سکریٹری خارجہ نےافغان سفیر پر مزید واضح کیا کہ قیادت کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق، پاکستان افغانستان کے ساتھ تحمل، ذمہ دارانہ رویے اور تعمیری رابطے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا‘۔

’ہم توقع رکھتے ہیں کہ افغان حکومت کی جانب سےبھی سرحد پر ایسے واقعات کو روکنے کے حوالے سے مؤثر اقدام کیا جائے گا، اور باہمی اعتماد اور بہتر ہمسایہ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں میں پاکستان کا ساتھ دیا جائے گا‘۔

اس سے پہلے، کابل سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، افغانستان نے پاکستان کی فورسز کی مبینہ گولہ باری سے اپنے سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر کابل میں پاکستانی سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔

افغان عہدیداروں کا الزام ہے کہ صوبہ کنڑ میں پاکستانی فورسز کی گولہ باری سے افغانستان بارڈر پولیس کے آٹھ اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

صوبہ کنڑ میں افغان اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستانی فوج نے اپنی سرحدی چوکی کے قریب اپنے ایک اہلکار کی لاش ملنے کے بعد صوبہ کنڑ کے ناڑی ضلع میں فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے مطابق کابل میں پاکستانی سفیر سید ابرار حسین کو طلب کر کے اُن سے گولہ باری کے حالیہ سلسلے پر شدید اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ اس طرح کا اقدام دوطرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کی یہ خبریں ایسے وقت سامنے آئیں جب افغانستان بدھ کو اپنا 96واں یوم آزادی منا رہا ہے۔

اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کہ کابل میں پاکستانی سفیر کو طلب کیا گیا تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

قاضی خلیل نے پاکستانی فوج کی مبینہ گولہ باری سے افغان اہلکاروں کی ہلاکت سے متعلق خبروں پر براہ راست کوئی بیان دینے سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز اُس وقت تک افغانستان کی جانب فائر نہیں کرتیں جب تک اُن پر کوئی حملہ نا کیا جائے۔

’’ہماری فورسز صرف دفاع میں فائر کرتی ہیں اور یہ ہماری پالیسی ہے اور اس سے افغانستان کو آگاہ کر چکے ہیں۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں نمایاں بہتری دیکھی گئی لیکن رواں ماہ کے اوائل میں کابل میں طالبان کے مہلک حملوں کے بعد پہلی مرتبہ صدر اشرف غنی نے اسلام آباد کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

پاکستان افغانستان میں مصالحت کی کوششوں میں کردار ادا کرتا رہا ہے اور جولائی میں پہلی مرتبہ پاکستان کی میزبانی میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے۔

امن کی کوششوں کے سلسلے میں مذاکرات کا دوسرا دور بھی پاکستان میں ہی ہونا تھا لیکن طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبروں کے بعد یہ عمل موخر کر دیا گیا۔

XS
SM
MD
LG