رسائی کے لنکس

پاک چین بس سروس پر بھارت کا احتجاج


فائل
فائل

بھارت نے پاکستان کے شہر لاہور اور چین کے شہر کاشغر کے درمیان شروع ہونے والی بس سروس پر دونوں ملکوں کے ساتھ سخت احتجاج کیا ہے۔ بس سروس کا آغاز تین نومبر سے ہوگا۔ یہ بس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گزرے گی اس لیے بھارت کا کہنا ہے کہ اس سے اس کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہوگی۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار سے جب مجوزہ بس سروس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ چونکہ یہ بس سروس نام نہاد چین پاک اقتصادی راہداری کا حصہ ہے اس لیے یہ ہماری علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔

بھارت پاکستان کے زیر انتظام کمشیر کو ’’اپنا علاقہ‘‘ اور ’’پاک مقبوضہ کشمیر‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس لیے وہ راہداری کا بھی مخالف ہے اور بس سروس کا بھی۔

رویش کمار نے کہا کہ یہ بھارت کا دیرینہ مؤقف رہا ہے جو سب کو معلوم ہے کہ 1963 میں چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والا سرحدی معاہدہ ”غیر قانونی اور ناجائز“ ہے اور بھارت نے اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔

ایک سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر شمشاد احمد نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ بھارت اُس کشمیر پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے اس لیے اس کا احتجاج فطری ہے۔

بقول اُن کے، ’’اگر آپ کسی علاقے پر جو کہ دوسرے کے زیر انتظام ہو، اپنا دعویٰ پیش کرتے ہوں تو ایسی سرگرمیوں پر احتجاج کرنا ضروری ہو جاتا ہے، تاکہ آپ کا مؤقف مضبوط رہے۔ میرے خیال میں بھارت نے اسی پہلو کو سامنے رکھ کر مجوزہ بس سروس کی مخالفت کی ہے‘‘۔

ادھر چین نے بس سروس کا دفاع کیا اور بھارت کے احتجاج کو یہ کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس سے واقف نہیں ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کے روز بیجنگ میں کہا کہ انھوں نے بس سروس کے بارے میں بھارت کی جانب سے کوئی شکایت نہیں سنی ہے۔

ان کے مطابق، CPEC چین اور پاکستان کے درمیان ایک اقتصادی راہداری ہے اور اس نے کسی تیسرے فریق کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ اس کا علاقائی تنازعہ سے بھی کوئی تعلق نہیں اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں اس کے مؤقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

چین بھارت و پاکستان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ باہمی مذاکرات و مشاورت سے مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG