رسائی کے لنکس

انسداد پولیو مہم کے متعلق بداعتمادی، مرض سے زیادہ خطرناک


بداعتمادی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان آج بھی دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو انسانی زندگیوں کے لئے عتاب بنا ہوا ہے۔

پاکستان میں حکومتی سطح پر پولیو کے خلاف جنگ جاری ہے لیکن عوامی سطح پر اس جنگ کے بارے میں بڑے پیمانے پر بداعتمادی پائی جاتی ہے۔

کم علمی اور ناسمجھی کا یہ حال ہے کہ پولیو کے قطروں کو کہیں 'برتھ کنٹرول' کی ادویات کہاجاتا ہے تو کہیں یہ خیال راسخ ہے کہ اس میں سور کی چربی ملی ہے لہذا اس کا استعمال حرام اور خلاف اسلام ہے۔


اس بداعتمادی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان آج بھی دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو انسانی زندگیوں کے لئے عتاب بنا ہوا ہے۔

پاکستان میں عوام میں موجود اس بداعتمادی کے متعلق 'نیو یارک ٹائمز' نے اپنی پیر کی اشاعت میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔

رپورٹ میں 32 سالہ عثمان کا ذکر ہے جو ایک ٹانگ سے معذور ہے اور بچپن میں ہی پولیو کا شکار ہوگیا تھا جس کے بعد اس نے یہ عزم کیا تھا کہ اپنے بچوں کو کم ازکم وہ اس بیماری سے ضرور دور رکھے گا۔

لیکن جب اس کے یہاں سب سے چھوٹے بیٹے نے جنم لیا تو عثمان، شاید دانستہ اپنا عزم بھول گیا اور جب اس کے دروازے پر انسداد پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں نے دستک دی تو اس نے سنی ان سنی کردی۔


'نیویارک ٹائمز' کی ایک رپورٹ کے مطابق عثمان کو اصل غصہ سی آئی اے پر تھا۔ اس نے کہیں سے سن لیا تھا کہ سی آئی اے نے جعلی انسداد پولیو مہم چلائی جس کے نتیجے میں القاعدہ کا رہنما اسامہ بن لادن مارا گیا۔ اسے امریکی ڈرون حملوں پر بھی غصہ تھاکہ اسی طرح کے ایک حملے میں عثمان کے ایک جاننے والے کا بیٹا بھی مارا گیا تھا۔

رواں سال جنوری میں اس کا دو سالہ بیٹا مشرف پولیو کا شکار ہوگیا۔ وہ اس سال دنیا بھر میں اس بیماری کا شکار ہونے والا پہلا بچہ تھا۔

عثمان اب پچھتاوے کی آگ میں جل رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی یہی سوچتا تھا کہ امریکہ پولیو مہم پر خطیر رقم خرچ کرتا ہے، یہ اس کا اچھا اقدام ہے لیکن برائی یہ ہے کہ اس انسانی مشن کو فوجی مقاصد کے طور پرغلط استعمال کیا جارہا ہے۔

امریکی خارجہ پالیسی پر اس کا اظہار ناراضگی پولیو کے خلاف جاری عالمی کوششوں کے لئے افسوسناک ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان میں نو پولیورضاکاروں کو قتل کردیا گیا جبکہ دو طالبان کمانڈرز نے اپنے اپنے علاقوں میں انسداد پولیو ادویات پر پابندی لگا دی۔ طالبان کا کہنا تھا کہ جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے انسداد پولیو مہم شروع نہیں ہوگی۔

مسلم آبادی کی اکثریت رکھنے والے نائجیریا کے جنوبی علاقے میں بھی پولیو کے خاتمے کے لئے سرگرم 10رضاکاروں کو رواں سال جنوری میں قتل کردیا گیا۔


اس کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رکا اور اب بھی پولیو مہم کے رضاکاروں کو مارنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے پولیو مہمات بھی بیچ بیچ میں روکی جاتی رہی ہیں۔

پولیو کے خلاف جنگ آسان نہیں ہے ۔ اس پر سالانہ دس کھرب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس مرض کے مکمل خاتمے میں ابھی مزید پانچ سال لگیں گے۔ آج سے 25 سال پہلے جب اس مہم کا آغاز ہوا تھا توسالانہ تین لاکھ پچاس ہزار افراد جن میں زیادہ تر بچے شامل تھے معذور ہوجایاکرتے تھے۔

لیکن گزشتہ سال 250 سے بھی کم لوگ اس مرض کا شکار ہوئے۔ اب صرف تین ممالک پاکستان، نائجیریا اور افغانستان ایسے ہیں جہاں ابھی تک اس مرض پر قابو نہیں پایا جاسکا ورنہ باقی ممالک پولیو کو مات دے چکے ہیں۔


کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں پر حملے بند نہ ہوئے تو پولیو مخالف کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ پاکستان کی حکومت پوری طرح سے کوشاں ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں اور وہ اس بات کو یقینی بنانے پر بھی آمادہ ہے ۔اسی لئے اس نے حالیہ برسوں میں پولیو کے خاتمے کے لئے بہت سے مفید اقدامات اٹھائے ہیں۔

انتہائی خطرناک علاقوں میں انسداد پولیو کے رضاکاروں کی تنخواہوں میں پانچ ڈالر یومیہ تک اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ پولیس اور فوجی اہلکاروں کی تعیناتی بھی بڑھادی گئی ہے نیز اس حوالے سے کنڑول رومز بھی قائم کئے گئے ہیں۔

لیکن وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ فوری طور پر پہلے سے شروع کئے گئے کام کو ختم کرلیا جائے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت جو کرکٹ سے لیکر جوہری ہتھیاروں تک پاکستان کا حریف سمجھاجاتا ہے وہ دو سال پہلے ہی پولیو کے خاتمے کا اعلان کرچکا ہے۔

پولیو کے خلاف بھارت کی کامیابی پر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کے سفر سے متعلق وارننگ کے اشارے ملنے پر پاکستان حکومت اس کے خلاف ڈٹ گئی ہے۔ حکومت نے کابینہ کی سطح پر ”پولیو سیل “قائم کیا ہے۔ رضاکاروں کا معاوضہ دوگنا کردیا گیا ہے۔ ایک ہزار سے زائد موبی لائزرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو اسکولوں اور مساجد سے پھیلنے والی ان افواہوں کے خلاف بند باندھیں گے جن میں کبھی یہ کہاجاتا ہے کہ پولیو کے قطروں میں سور کی چربی ملی ہے تو کبھی کہاجاتا ہے کہ ان کے ذریعے برتھ کنڑول کا کام لیاجارہا ہے ۔

یہ افواہ بھی اڑائی جاتی رہی ہے کہ ان میں ایڈز یا ایچ آئی وی کا وائرس شامل کیا گیاہے۔

مقامی علمائے کرام نے پولیو ادویات کو مذکورہ بالا تمام افواہوں سے پاک ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ اس حوالے سے 24 قسم کے فتوے بھی جاری کئے ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ پولیوادویات میں ایسا کچھ نہیں۔ ادویات استعمال کرنے کے لئے باقاعدہ مطبوعہ ہدایات میں بھی یہ بات درج ہے کہ انسداد پولیو ادویات ہر قسم کے خدشات سے پاک ہیں۔

ملک میں پولیو کے خاتمے کے لئے کام کرنے والے رضاکاروں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی اپنی سیکورٹی ہے۔ رواں سال دسمبر میں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاوٴن میں بھی کچھ رضاکاروں کو قتل کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد گھر گھر جاکر پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کوایک افسر اور چھ سیکورٹی اہلکاروں کی نگرانی میں کام مکمل کرنے کے لئے بھیجاگیا۔ سیکورٹی اہلکاروں کو حفاظت کی غرض سے اے کے 47 رائفل اپنے پاس رکھنا پڑی۔

مقامی پولیس افسر ڈاکٹر سید علی نے رازدارانہ انداز میں بتایا کہ ”سیکورٹی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ بندوق کے آگے چھڑی کی کیا اہمیت ہے؟

گڈاپ کی ایک نقاب پوش رضاکارمدیحہ کا کہنا ہے، ”لو گ ہم سے کہتے ہیں کہ انہیں اسکولوں، سڑکوں اور مکانات کی ضرورت ہے لیکن ہم ہیں کہ پولیو پولیو کا شور مچارکھا ہے"۔

گزشتہ سال کے اوائل میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ سی آئی اے نے ایک مقامی ڈاکٹر کو پیسے دے کر ایبٹ آباد کمپاوٴنڈ میں بھیجا تاکہ وہ کمپاوٴنڈ میں رہنے والوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرسکے تاکہ وہاں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق ہوسکے۔ 33سالہ ڈاکٹر شکیل آفریدی بغاوت کے جرم میں زیر حراست ہے۔

انسداد پولیو کے رضاکاروں کو آج کل نئی افواہوں کے خلاف لڑناپڑرہا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے ہدف کے طور پر چاک سے مکانات کی نشاندہی کرتے ہیں، حالانکہ اصل میں ایسا کچھ نہیں۔

سالوں کی یقین دہانی کے بعد اب کچھ خاندانوں کو اعتبار ہوگیا ہے کہ رضاکاروں کی ٹیموں کا سی آئی اے سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل جنگ پولیو کے خلاف لڑی جانی چاہئے نہکہ رضاکاروں اور مہم کے خلاف۔ عوامی سطح پر جتنا جلد بداعتمادی دور ہوگی اتنی جلدی پاکستان کو پولیو سے ہمیشہ کے لئے نجات مل سکے گی۔
XS
SM
MD
LG