رسائی کے لنکس

بھارت جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کشمیر میں کیوں کرانا چاہتا ہے؟


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتظامی سربراہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے تصدیق کی ہے کہ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے گروپ جی ٹوئنٹی کا اگلا سربراہی اجلاس بھارتی کشمیر میں ہو گا۔ تاہم پاکستان نے بھارت کے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے متنازع علاقے میں اجلاس کرنے کی مخالفت کر دی ہے۔

منوج سنہا نے پیر کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اگلے سال جی ٹوئنٹی اجلاس کی میزبانی بھارت کرے گا اور اس کا انعقاد بھارتی کشمیر میں کیا جائے گا۔ بھارتی حکام نے اس حوالے سے ایک اعلٰی سطحی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

منوج سنہا کا کہنا تھا کہ "یہ اچھی شروعات ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ یہ ہمارے لیے خصوصی اعزاز ہے کہ ہمیں جی 20سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ہم نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور ہم اسے ایک عظیم واقعہ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ '

اس سے پہلے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پرنسپل سیکریٹری جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ منوج کمار دویویدی نے ایک باضابطہ حکم نامہ جاری کرکے ایک پانچ رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی جسے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ساتھ مل کر اس سربراہی اجلاس کی تیاریوں کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔

کمیٹی کا سربراہ محکمہ مکانات و شہری ترقی کے پرنسپل سیکریٹری کو مقرر کیا گیا ہے اور اس کے ممبران ٹرانسپورٹ، سیاحت اور ثقافت محکموں کے انتظامی سیکریٹری ہوں گے۔


جی ٹوئنٹی اہم کیوں ہے؟

جی ٹوئنٹی کا قیام 1999 میں عمل میں لایا گیا تھا، لیکن یہ 2008 کے معاشی بحران کے دوران عالمی سطح پر ایک قوت بن کر سامنے آیا۔ بہت سے ماہرینِ اقتصادیات بڑے معاشی نقصان سے بچانے کا کریڈٹ اسے دیتے ہیں۔

اقتصادی لحاظ سے دنیا کے 19 اہم ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل جی ٹوئنٹی گروپ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 80 فی صد، عالمی تجارت کا 75 فی صد اور دنیا کی 60 فی صد آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔

ان ملکوں میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں جب کہ یورپی یونین بھی اس کی رُکن ہے۔

جی ٹوئنٹی میں بھارت کی اہمیت

بھارت یکم دسمبر 2022 کو جی ٹوئنٹی کی صدارت سنبھالے گا اور 2023میں پہلی بار جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا۔

ایک اعلٰی حکومتی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جی ٹوئنٹی ملکوں کے سربراہان کا اجلاس سرینگر میں ہو گا یا نہیں اس کا حتمی فیصلہ ایک یا دو روز میں ہو جائے گا۔ تاہم اُن کے بقول اشارے مل رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی کشمیر میں ہی اجلاس منعقد کرانا چاہتے ہیں۔

بھارت سربراہی اجلاس کا انعقاد جموں و کشمیر میں کیوں کرنا چاہتا ہے؟

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جی ٹوئنٹی ملکوں کا اجلاس بھارتی کشمیر میں ہو گیا تو یہ بھارت کی بڑی سفارتی کامیابی ہو گی۔

بھارت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے یونین میں ضم کر لیا تھا، لہذٰا بعض ماہرین کے مطابق بھارت یہاں اس نوعیت کا بڑا اجلاس منعقد کرا کر یہ تاثر دے گا کہ یہ اب مکمل طور پر بھارت کا حصہ ہے۔

'بھارت پاکستان کے خلاف سفارتی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے'

تجزیہ کار پروفیسر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ نئی دہلی دنیا پر یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا ایک حصہ ہے جہاں پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے بعد بدامنی کا خاتمہ ہوا اور اب علاقے میں امن و امان اور خوشحالی ہے۔

انہوں نے کہا "جی ٹوئنٹی اہم ممالک کا گروپ ہے جن میں سے چند ایک اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل ممبر ہیں ، چند ایک اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے رکن ہیں جس نے کشمیر پر ایک مضبوط مؤقف اختیار کررکھا ہے۔

جموں و کشمیر میں پہلے بھی بین الاقوامی کانفرنسیں اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے لیکن کسی عالمی تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس پہلی بار ہوگا۔

پروفیسر بابا کا کہنا ہے کہ اگر بھارت واقعی جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کی میزبانی جموں و کشمیر میں کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ اس کی پاکستان کے خلاف سفارتی سطح پر حکمتِ عملی کی ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔'

پاکستان کو ابھی سے لابنگ شروع کرنا ہو گی'

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے حکومتِ پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے اس اقدام کا راستہ روکنے کے لیے لابنگ شروع کرے۔

اُن کے بقول سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا جیسے ملکوں سے پاکستان کے اچھے تعلقات ہیں، لہذٰا انہیں بروئے کار لا کر پاکستان کو یہ اجلاس بھارتی کشمیر میں ہونے سے روکنا چاہیے۔

عبدالباسط کے بقول یہ اجلاس بھارتی کشمیر میں منعقد کرانے کا اعلان کر کے بھارت نے اپنے زیرِ قبضہ کشمیر کی صورتِ حال پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بھارت یہ اجلاس اگلے برس جون میں کرانا چاہتا ہے، لہذٰا پاکستان کے پاس پورا ایک سال ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی سفارتی کوششیں کرے۔

بھارتی کشمیر اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے مشہور ہے۔
بھارتی کشمیر اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے مشہور ہے۔

پاکستان کا اعتراض

بھارت کی جانب سے جی ٹوئنٹی ملکوں کا اجلاس بھارتی کشمیر میں کرانے کی خبروں پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حل طلب مسئلہ ہے اور اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر اب بھی موجود ہے۔

ترجمان نے الزام لگایا تھا کہ بھارتی کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور پانچ اگست کے بعد سے لے کر اب تک درجنوں بے گناہ کشمیریوں کو قتل کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG